
اقوام متحدہ نے پاکستان کی قیادت میں پیش کی گئی تخفیفِ اسلحہ اور جوہری سلامتی سے متعلق قراردادیں منظور کر لیں
بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے امن و استحکام کے مؤقف کی توثیق، جنوبی ایشیا میں کشیدگی کے تناظر میں اہم پیش رفت
مدثر احمد-امریکہ،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی تخفیفِ اسلحہ اور بین الاقوامی سلامتی سے متعلق پہلی کمیٹی نے ہفتے کے روز پاکستان کی جانب سے پیش کی گئی چار اہم قراردادوں کو بھاری اکثریت سے منظور کر لیا۔ یہ قراردادیں علاقائی تخفیفِ اسلحہ، جوہری سلامتی، اور روایتی ہتھیاروں کے کنٹرول سے متعلق ہیں، اور عالمی برادری کے اس عزم کا اعادہ کرتی ہیں کہ دنیا کو اسلحے کی دوڑ سے نجات دلانے کے لیے اجتماعی اقدامات کیے جائیں۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب پاکستان اور بھارت کے درمیان مئی 2025 میں ہونے والی مختصر مگر شدید جنگ کے اثرات اب بھی خطے میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔ اس جنگ میں دونوں ممالک کے تقریباً 70 افراد جاں بحق ہوئے تھے اور عالمی برادری کی جانب سے جنوبی ایشیا میں جوہری کشیدگی کے خطرات پر گہری تشویش ظاہر کی گئی تھی۔
پاکستان کی اسپانسر کردہ قراردادوں کی تفصیلات
اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مشن کی جانب سے جاری بیان کے مطابق، جنرل اسمبلی کی تخفیفِ اسلحہ کمیٹی نے چاروں قراردادوں کو منظور کیا، جن کے عنوانات درج ذیل ہیں:
علاقائی تخفیفِ اسلحہ (Regional Disarmament)
علاقائی اور ذیلی علاقائی سطح پر اعتماد سازی کے اقدامات (Confidence-Building Measures at Regional and Subregional Levels)
جوہری ہتھیاروں کے استعمال یا اس کے خطرے کے خلاف مؤثر بین الاقوامی انتظامات (Effective International Arrangements to Assure Non-Use of Nuclear Weapons)
روایتی ہتھیاروں کے کنٹرول کے لیے علاقائی و ذیلی سطح کے اقدامات (Conventional Arms Control at the Regional and Subregional Levels)
بیان میں بتایا گیا ہے کہ ان چار میں سے دو قراردادیں اتفاقِ رائے (Consensus) سے منظور ہوئیں، جب کہ دیگر دو قراردادوں کو بھاری اکثریت سے رکن ممالک نے منظور کیا۔
"پاکستان ہمیشہ عالمی سلامتی کے لیے تخفیفِ اسلحہ کی کوششوں کی قیادت کرتا رہا ہے” — اقوام متحدہ میں پاکستانی مشن
پاکستانی مشن کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کئی دہائیوں سے اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر تخفیفِ اسلحہ، جوہری سلامتی، علاقائی اعتماد سازی، اور روایتی ہتھیاروں کے کنٹرول سے متعلق عالمی اقدامات میں پیش پیش رہا ہے۔
بیان کے مطابق:
"ان قراردادوں کی منظوری اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عالمی برادری پاکستان کے موقف کی تائید کرتی ہے کہ خطے میں پائیدار امن کا قیام اس وقت ممکن ہے جب اسلحے کی دوڑ پر قابو پایا جائے اور جوہری خطرات کو کم کرنے کے لیے اجتماعی اقدامات کیے جائیں۔”
پاکستانی وفد نے اس موقع پر زور دیا کہ جنوبی ایشیا میں سلامتی کی فضا اُس وقت تک بحال نہیں ہو سکتی جب تک علاقائی سطح پر اعتماد سازی اور تنازعات کے حل کے لیے مؤثر مکالمے کا سلسلہ شروع نہ کیا جائے۔
جنرل ساحر شمشاد مرزا کی جانب سے تنبیہ — "آئندہ بحران زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے”
پاکستان کے اعلیٰ فوجی کمانڈر چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا نے حالیہ انٹرویو میں خطے کی کشیدہ صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ
"مئی 2025 کی لڑائی نے اس بات کو واضح کر دیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان بحرانوں سے نمٹنے کے مؤثر طریقۂ کار کی عدم موجودگی مستقبل میں بڑے تصادم کا باعث بن سکتی ہے۔”
انہوں نے سنگاپور میں ایک عالمی دفاعی فورم کے دوران کہا کہ "آئندہ اگر اس نوعیت کی کوئی صورتحال پیدا ہوئی تو بین الاقوامی ثالثی بھی مؤثر نہیں رہ سکے گی، جس سے خطے میں جوہری خطرات مزید بڑھ سکتے ہیں۔”
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ہمیشہ امن، استحکام اور بات چیت کے ذریعے تنازعات کے حل کا خواہاں رہا ہے، مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ بھارت خطے میں اسلحے کی دوڑ اور طاقت کے توازن کو بگاڑنے والے اقدامات سے باز آئے۔
عالمی برادری کا ردعمل — پاکستان کے کردار کی تحسین
عالمی تجزیہ کاروں نے پاکستان کی قیادت میں منظور ہونے والی قراردادوں کو جنوبی ایشیا میں امن و استحکام کے فروغ کے لیے ایک مثبت پیش رفت قرار دیا ہے۔
اقوام متحدہ کے کئی رکن ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان کی جانب سے پیش کردہ تجاویز صرف جنوبی ایشیا ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر تخفیفِ اسلحہ کے ایجنڈے کو مضبوط بنانے میں مددگار ثابت ہوں گی۔
امریکی تھنک ٹینک "کارنیگی انڈاؤمنٹ” کے ایک تجزیہ کار کے مطابق، پاکستان کی حالیہ سفارتی کاوشوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ "اسلام آباد علاقائی سلامتی کے لیے ایک ذمہ دار اور فعال کردار ادا کر رہا ہے۔”
جنوبی ایشیا — جوہری خطرات کا مرکز
ماہرین کے مطابق مئی 2025 کی جنگ کے بعد جنوبی ایشیا ایک بار پھر دنیا کے خطرناک ترین جوہری خطوں میں شامل ہو گیا ہے۔ دونوں ممالک کے پاس سینکڑوں جوہری وار ہیڈز، طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سسٹم، اور متحرک عسکری ڈھانچے ہیں، جو کسی بھی غلط فہمی یا حادثے کی صورت میں تباہ کن نتائج پیدا کر سکتے ہیں۔
پاکستان کی جانب سے تخفیفِ اسلحہ سے متعلق قراردادوں کی منظوری کو اسی پس منظر میں جوہری خطرات میں کمی اور خطے میں اعتماد سازی کی سمت ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کا طریقۂ کار اور آئندہ مرحلہ
اقوام متحدہ کے طریقۂ کار کے مطابق، پہلی کمیٹی میں منظور ہونے والی قراردادیں اب جنرل اسمبلی کے اگلے سیشن میں باضابطہ منظوری کے لیے پیش کی جائیں گی۔
ایک بار جنرل اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ قراردادیں عالمی تخفیفِ اسلحہ پالیسی کے حصے کے طور پر رکن ممالک کے لیے رہنما اصول (Guiding Frameworks) کی حیثیت اختیار کر لیں گی۔
نتیجہ
پاکستان کی قیادت میں منظور ہونے والی یہ قراردادیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ اسلام آباد نہ صرف علاقائی امن و استحکام بلکہ عالمی سطح پر جوہری سلامتی اور اسلحہ کنٹرول کے فروغ میں ایک اہم اور مؤثر کردار ادا کر رہا ہے۔
یہ اقدام ماضی کی جنگی صورتحال اور بڑھتی ہوئی کشیدگی کے تناظر میں عالمی برادری کی اس خواہش کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ جنوبی ایشیا کو تصادم نہیں بلکہ مذاکرات اور باہمی احترام کے راستے پر لایا جائے۔
