
نو نومبر اور ’شیشے کی کرچیوں کی رات‘: جرمن تاریخ کا وہ دن جب سب کچھ بدل گیا…….سید عاطف ندیم
9 اور 10 نومبر 1938 کی درمیانی شب، نازی حکومت کے اشارے پر ہزاروں نیم فوجی دستوں (SA اور SS) اور عام شہریوں نے جرمنی اور آسٹریا میں یہودی دکانوں، عبادت گاہوں، گھروں اور اسکولوں پر حملے کیے۔
نو نومبر جرمن تاریخ میں ایک غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے۔ یہ دن محض کیلنڈر کا ایک صفحہ نہیں بلکہ کئی تاریخی واقعات کا گواہ ہے جنہوں نے جرمنی کے سیاسی، سماجی اور انسانی منظرنامے کو ہمیشہ کے لیے بدل کر رکھ دیا۔ خاص طور پر 9 نومبر 1938، جسے دنیا "کریسٹالنخت” (Kristallnacht) یا "شیشے کی کرچیوں کی رات” کے نام سے جانتی ہے، وہ رات تھی جب نازی حکومت کے زیرِ سایہ یہودیوں کے خلاف منظم تشدد نے ایک بھیانک موڑ لیا۔1933 میں ایڈولف ہٹلر کے اقتدار میں آنے کے بعد جرمنی میں یہودی مخالف پروپیگنڈا تیزی سے بڑھا۔ نازی پارٹی نے یہودیوں کو جرمنی کے مسائل کا ذمہ دار ٹھہرا کر ان کے خلاف نفرت کو منظم شکل دی۔ سرکاری میڈیا، تعلیمی نصاب اور عوامی تقریبات میں مسلسل یہودیوں کو "غیر جرمن” اور "ریاست کے دشمن” کے طور پر پیش کیا جانے لگا۔یہودیوں کے کاروبار بند کیے گئے، ان پر بھاری ٹیکس عائد ہوئے، اور ان کے بچوں کو اسکولوں میں داخلہ دینے سے بھی روکا جانے لگا۔ نازی پروپیگنڈا مشینری نے یہودیوں کے خلاف نفرت کو اس شدت سے پھیلایا کہ عام شہریوں کے ذہن بھی زہر آلود ہو گئے۔
اس خونی رات کا جواز ایک نوجوان یہودی ہیرشل گریئنزپان (Herschel Grynszpan) کی جانب سے پیرس میں ایک جرمن سفارت کار اےرنست فام رات (Ernst vom Rath) کے قتل کو بنایا گیا۔ ہیرشل کا خاندان پولینڈ میں جلاوطن ہو گیا تھا، جس پر وہ شدید غم و غصے میں تھا۔ نازی حکومت نے اس واقعے کو بہانہ بنا کر پورے جرمنی میں یہودیوں کے خلاف ایک منظم حملہ شروع کیا۔
9 اور 10 نومبر 1938 کی درمیانی شب، نازی حکومت کے اشارے پر ہزاروں نیم فوجی دستوں (SA اور SS) اور عام شہریوں نے جرمنی اور آسٹریا میں یہودی دکانوں، عبادت گاہوں، گھروں اور اسکولوں پر حملے کیے۔
دکانوں کے شیشے توڑ کر سامان لوٹ لیا گیا، سیناگاگس (یہودی عبادت گاہیں) کو آگ لگا دی گئی، اور ہزاروں گھروں کو تباہ کر دیا گیا۔
اعداد و شمار خوفناک ہیں:
7,500 سے زائد دکانیں مکمل طور پر تباہ ہوئیں۔
300 سے زیادہ سیناگاگس جل کر خاک ہو گئیں۔
90 سے زائد یہودی شہری قتل کر دیے گئے۔
30,000 سے زیادہ یہودی مرد گرفتار ہو کر حراستی کیمپوں میں بھیج دیے گئے۔
شیشے کے ٹوٹنے کی آوازیں، جلتی عمارتوں کے شعلے، اور چیختے لوگوں کی صدائیں — یہی وہ مناظر تھے جنہوں نے اس رات کو ہمیشہ کے لیے "شیشے کی کرچیوں کی رات” بنا دیا۔
نازی حکومت نے اس خونی واقعے کو "عوامی غصے کا خود رو مظاہرہ” قرار دیا، مگر تاریخ دانوں کے مطابق یہ سراسر جھوٹ تھا۔ یہ حملے پہلے سے منصوبہ بند تھے، جنہیں حکومت نے خاموش تائید دی۔ پولیس اور فائر بریگیڈ کو واضح ہدایات تھیں کہ وہ یہودی املاک کی حفاظت نہ کریں، بلکہ صرف "غیر یہودی عمارتوں” کو بچائیں۔
جرمنی کے بیشتر شہریوں نے یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا، مگر بہت کم آوازیں احتجاج کے لیے بلند ہوئیں۔ اس خاموشی نے نازی حکومت کو مزید طاقت دی۔
اس واقعے کے بعد جرمنی میں یہودیوں کے لیے زندگی تقریباً ناممکن بنا دی گئی۔ ان پر بھاری جرمانے عائد کیے گئے، ان کے کاروبار سرکاری تحویل میں لے لیے گئے، اور انہیں عوامی ملازمتوں سے نکال دیا گیا۔
یہ کریسٹالنخت دراصل ہولوکاسٹ (Holocaust) کی پہلی کھلی پیش قدمی تھی — وہی ہولوکاسٹ جس میں بعد ازاں 60 لاکھ سے زائد یہودیوں کو قتل کر دیا گیا۔
دنیا بھر میں اس واقعے کی مذمت تو ہوئی، مگر کسی بڑی طاقت نے جرمنی کے خلاف عملی قدم نہیں اٹھایا۔ امریکہ نے اپنا سفیر واپس بلا لیا، مگر معاشی یا سیاسی دباؤ نہیں ڈالا۔ برطانیہ اور فرانس نے زبانی احتجاج تک خود کو محدود رکھا۔
یہ خاموشی ہٹلر کے لیے ایک پیغام تھی — کہ دنیا کچھ نہیں کرے گی۔ اور یہی خاموشی چند سال بعد دوسری جنگِ عظیم کے شعلوں میں بدل گئی۔
آج جرمنی ہر سال 9 نومبر کو کریسٹالنخت کی یاد میں سوگواری کے اجتماعات منعقد کرتا ہے۔ اسکولوں میں خصوصی لیکچر ہوتے ہیں، طلبہ کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ نفرت اور خاموشی کتنی خطرناک ہو سکتی ہے۔
برلن، میونخ اور فرینکفرٹ میں ہزاروں لوگ شمعیں جلا کر ان جانوں کو یاد کرتے ہیں جو اس رات بے رحمی سے چھین لی گئیں۔
جرمن صدر فرانک-والٹر شٹائن مائر نے ایک یادگاری تقریب میں کہا:“کریسٹالنخت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ جب ہم نفرت کے سامنے خاموش رہتے ہیں، تو ہم تاریخ کے مجرم بن جاتے ہیں۔”
9 نومبر 1938 کی ’شیشے کی کرچیوں کی رات‘ صرف ماضی کا سانحہ نہیں، بلکہ ایک ایسا سبق ہے جو آج بھی اتنا ہی اہم ہے۔یہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ظلم کبھی اچانک نہیں پھوٹتا — وہ نفرت، خاموشی، اور لاپرواہی کے بیجوں سے جنم لیتا ہے۔
کریسٹالنخت اس بات کا استعارہ ہے کہ جب معاشرہ مظلوموں کی آواز نہیں بنتا، تو انسانیت خود ٹوٹ کر کرچیوں میں بکھر جاتی ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نو نومبر جرمنی کے لیے صرف کریسٹالنخت کا دن نہیں۔ اس تاریخ پر جرمنی کی تاریخ میں کئی اہم واقعات رونما ہوئے:
1918: پہلی جنگِ عظیم کے بعد قیصر ولہلم دوم نے تخت چھوڑا اور جرمنی کو جمہوریہ قرار دیا گیا۔
1923: ہٹلر کی ناکام بغاوت (Beer Hall Putsch) میونخ میں اسی دن ہوئی۔
1938: کریسٹالنخت — نازی تشدد کا اندوہناک مظاہرہ۔
1989: برلن وال (Berlin Wall) اسی دن گری، جس نے مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کی راہ ہموار کی۔
یوں 9 نومبر جرمنی کے لیے بیک وقت المیے، انقلاب اور آزادی کی علامت بن چکا ہے۔

