پاکستاناہم خبریں

پاکستان میں 27ویں آئینی ترمیم 2025 کا بل قومی اسمبلی میں پیش

“عدالتوں کا زیادہ وقت آئینی مقدمات میں صرف ہوتا ہے۔ آئینی عدالت کے قیام سے دیگر عدالتی مقدمات کی سماعت تیز ہوگی اور عام شہریوں کو جلد انصاف مل سکے گا۔”

سید عاطف ندیم-پاکستان، وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر 27ویں آئینی ترمیم کا بل 2025ء وفاقی وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں پیش کردیا۔ یہ بل ایک روز قبل سینیٹ سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کیا جا چکا ہے، اور آج اس کے قومی اسمبلی سے منظوری کا بھی قوی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔

اس ترمیم کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت کے قیام، فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی دائرے میں لانے، اور صدرِ مملکت کے لیے تاحیات استثنیٰ سمیت متعدد اہم آئینی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔


قومی اسمبلی کا اجلاس — سینیٹر عرفان صدیقی کے لیے دعائے مغفرت

قومی اسمبلی کا اجلاس اسپیکر ایاز صادق کی زیرِ صدارت ہوا، جس کا آغاز مسلم لیگ (ن) کے مرحوم سینیٹر عرفان صدیقی کے انتقال پر دعائے مغفرت سے کیا گیا۔
اس کے بعد وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں 27ویں آئینی ترمیمی بل پیش کیا اور کہا کہ آئین میں تبدیلی ہمیشہ اتفاقِ رائے، پارلیمانی روایت اور جمہوری عمل کے ذریعے کی جاتی ہے۔


آئینی عدالت کا قیام — عدالتی نظام میں اصلاحات کی نئی سمت

وزیر قانون نے وضاحت کی کہ 27ویں ترمیم کے تحت پاکستان میں ایک وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court) قائم کی جائے گی۔
انہوں نے کہا:

“عدالتوں کا زیادہ وقت آئینی مقدمات میں صرف ہوتا ہے۔ آئینی عدالت کے قیام سے دیگر عدالتی مقدمات کی سماعت تیز ہوگی اور عام شہریوں کو جلد انصاف مل سکے گا۔”

انہوں نے بتایا کہ مجوزہ آئینی عدالت میں وفاق اور چاروں صوبوں کو نمائندگی دی جائے گی اور از خود نوٹس کے اختیار (Suo Motu Powers) پر نظر ثانی کی گئی ہے تاکہ اس کے استعمال میں توازن پیدا کیا جا سکے۔


فیلڈ مارشل کا عہدہ — تاریخی اعتراف کو آئینی حیثیت

وزیر قانون نے مزید بتایا کہ ترمیم کے تحت فیلڈ مارشل کے عہدے کو آئینی تحفظ دینے کی تجویز دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے بہادر سپوت کو "معرکۂ حق” میں تاریخی کامیابی پر فیلڈ مارشل کے اعزاز سے نوازا گیا، لہٰذا یہ ضروری تھا کہ فائیو اسٹار عہدے کو قانونی طور پر آئینی حیثیت دی جائے۔

اعظم نذیر تارڑ نے وضاحت کی:

“فیلڈ مارشل کا اعزاز تاحیات رہے گا، اور کسی فردِ واحد کو یہ اختیار نہیں ہوگا کہ وہ اس اعزاز کو واپس لے۔
اگر کسی قومی ہیرو سے یہ اعزاز واپس لینا ہو تو فیصلہ صرف پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں بحث اور ووٹ کے ذریعے کیا جا سکے گا۔”


صدر مملکت کے لیے تاحیات استثنیٰ

ترمیم کے تحت آرٹیکل 248 میں تبدیلی کی تجویز دی گئی ہے، جس کے مطابق صدرِ مملکت کو ریٹائرمنٹ کے بعد بھی تاحیات قانونی استثنیٰ (Lifetime Immunity) حاصل رہے گا۔
وزیر قانون نے کہا:

“صدرِ مملکت ریاست کا سب سے بڑا آئینی عہدہ ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں بھی اسے عزت و تکریم دی جاتی ہے۔ یہ مناسب نہیں کہ سبکدوش صدر اگلے روز عدالتوں یا پولیس کے نوٹسز کا سامنا کرے۔”

البتہ، اگر کوئی صدر ریٹائرمنٹ کے بعد دوبارہ عوامی عہدہ سنبھالتا ہے تو استثنیٰ ختم ہو جائے گا۔


آئینی مشاورت اور اپوزیشن کا بائیکاٹ

وزیر قانون نے کہا کہ حکومت نے اس عمل کو وسیع مشاورت کے ساتھ مکمل کرنے کی کوشش کی، لیکن اپوزیشن جماعتوں نے مشترکہ کمیٹی میں شرکت نہیں کی۔
انہوں نے کہا:

“ہم چاہتے تھے کہ اپوزیشن بھی اپنی رائے دے، مگر بدقسمتی سے انہوں نے اس اہم آئینی مرحلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔”


اپوزیشن کا مؤقف — “جمہوریت برائے نام رہ جائے گی”

پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ 27ویں ترمیم جمہوریت کو محدود کرنے کی کوشش ہے۔
انہوں نے کہا:

“ہم سمجھ رہے تھے کہ ترمیم سے عدلیہ مضبوط ہوگی، مگر یہ حکومت اپنے کیسز بند کرنے کے بعد اب خود کو تاحیات استثنیٰ دے رہی ہے۔
ایسے دستور کو ہم نہیں مانتے۔”

انہوں نے سوال اٹھایا:

“دنیا کے کس صدر کو تاحیات استثنیٰ حاصل ہے؟ کیا ٹرمپ یا سرکوزی کے پاس ایسا حق تھا؟”


پیپلز پارٹی کا مؤقف — “ترمیم مشاورت کے ذریعے تیار ہوئی”

پیپلز پارٹی کی رکن شازیہ مری نے ایوان میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف نے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو ترمیمی بل پر مکمل اعتماد میں لیا۔
انہوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی نے اپنی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی (CEC) کا اجلاس بلا کر اس بل پر تفصیلی مشاورت کی۔
ان کا کہنا تھا:

“اپوزیشن آئینی و جمہوری روایات سے نابلد ہے۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے دور میں بل پڑھنے کے بجائے ’پڑھا ہوا سمجھا جائے‘ کی روِش اختیار کرتے تھے۔”


دو تہائی اکثریت — حکومتی اتحاد کے حق میں عددی برتری

ترمیم کی منظوری کے لیے قومی اسمبلی میں دو تہائی اکثریت درکار ہے، جو اس وقت حکومتی اتحاد کے پاس موجود ہے۔
اتحاد میں شامل جماعتوں میں:
پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم پاکستان، پاکستان مسلم لیگ (ق)، استحکامِ پاکستان پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی، نیشنل پیپلز پارٹی، اور مسلم لیگ (ضیا) شامل ہیں۔


سینیٹ میں منظوری — حزب اختلاف کا احتجاج اور واک آؤٹ

گزشتہ روز سینیٹ میں ترمیمی بل کی منظوری کے دوران حزب اختلاف نے شدید احتجاج کیا۔
پی ٹی آئی اور جے یو آئی (ف) کے سینیٹرز نے نعرے بازی، کاغذات پھاڑنے، اور واک آؤٹ کے ذریعے اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔
تاہم، حکومتی اتحاد کو دو سینیٹرز کے غیر متوقع ووٹ ملنے سے دو تہائی اکثریت حاصل ہو گئی، اور بل باآسانی منظور کر لیا گیا۔
اس کے بعد جے یو آئی (ف) نے اپنے ایک سینیٹر احمد خان کو پارٹی سے نکال دیا جبکہ پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے استعفیٰ دے دیا۔


اختتامی نوٹ

27ویں آئینی ترمیم کو ملک کی تاریخ کی سب سے جامع آئینی اصلاحات میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے، جو نہ صرف عدالتی نظام بلکہ عسکری اور آئینی عہدوں کے درمیان اختیارات کے توازن کو نئی سمت دے سکتی ہے۔
حکومت کے مطابق یہ بل ریاستی اداروں کے درمیان ہم آہنگی کے لیے ایک سنگِ میل ثابت ہوگا، جبکہ اپوزیشن کے نزدیک یہ طاقت کے مرکز کو مزید مستحکم کرنے کی ایک کوشش ہے۔

آئندہ 24 گھنٹوں میں قومی اسمبلی میں ووٹنگ کے بعد یہ واضح ہو جائے گا کہ 27ویں آئینی ترمیم ملک کے آئینی ڈھانچے میں کس حد تک دیرپا اثرات ڈالے گی.

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button