مشرق وسطیٰاہم خبریں

ٹرمپ، الشرع ملاقات کے بعد شام داعش مخالف اتحاد میں شامل

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب شامی حکومت اندرونِ ملک داعش کے باقیات کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے اور فرقہ وارانہ تشدد کی نئی لہر سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔

جاوید اختر اے ایف پی، اے پی، روئٹرز، ڈی پی اے کے ساتھ

وائٹ ہاؤس میں ہونے والی اعلیٰ سطحی ملاقات کے بعد شام نے پیر کے روز شدت پسند تنظیم داعش (اسلامک اسٹیٹ) کے خلاف امریکی قیادت والے بین الاقوامی اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی۔

امریکی حکام کے مطابق، داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد میں شمولیت سے شام کو دہشت گردی کے خاتمے، سلامتی، اور اقتصادی تعاون کے حوالے سے نئے مواقع حاصل ہوں گے۔

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب شامی حکومت اندرونِ ملک داعش کے باقیات کے خلاف کارروائیاں کر رہی ہے اور فرقہ وارانہ تشدد کی نئی لہر سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔

شام کے وزیرِ اطلاعات حمزہ المصطفیٰ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اعلان کیا کہ معاہدہ فی الحال سیاسی نوعیت کا ہے اور اس میں کوئی فوجی شق شامل نہیں، لیکن یہ شام کے لیے عالمی سطح پر ایک اہم شراکت داری کی علامت ہے۔ جس سے ”دہشت گردی کے خلاف شراکت دار کے طور پر اپنے کردار اور علاقائی استحکام کی حمایت‘‘ کی توثیق ہوتی ہے۔

شامی وزیر کے مطابق، شام کو امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات بحال کرنے کی بھی اجازت دی جائے گی تاکہ ”دہشت گردی کے خلاف کارروائی، سلامتی اور اقتصادی ہم آہنگی‘‘ کو مزید فروغ دیا جا سکے۔

داعش، ایک وقت میں عراق کے تقریباً 40 فیصد اور پڑوسی شام کے ایک تہائی علاقے پر قابض تھی۔ امریکی قیادت والے فوجی اتحاد نے 2014 میں اس گروہ کے خلاف کارروائیاں شروع کیں، اور اب اسے فوجی طور پر شکست خوردہ سمجھا جاتا ہے۔

تاہم، داعش مکمل طور پر ختم نہیں ہوئی۔ امریکی سینٹرل کمانڈ کے مطابق، اس وقت عراق اور شام میں تقریباً 2,500 جنگجو موجود ہیں جو اب بھی حملے کرتے رہتے ہیں۔

احمد الشرع اپنے وفد کے ساتھ وائٹ ہاوس میں صدر ٹرمپ سے بات کرتے ہوئے
الشرع اور ٹرمپ نے دو طرفہ تعلقات، انہیں مضبوط اور ترقی دینے کے طریقوں، اور متعدد علاقائی و بین الاقوامی امورِ باہمی دلچسپی پر گفتگو کیتصویر: SANA/AFP

ٹرمپ نے کیا کہا؟

احمد الشرع سے ملاقات کے بعد ٹرمپ نے کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ شام دس سال سے زائد خانہ جنگی کے بعد ”انتہائی کامیاب ملک‘‘ بنے۔  انہوں نے مزید کہا کہ ان کا یقین ہے کہ الشرع ’’یہ کر سکتے ہیں، واقعی کر سکتے ہیں‘‘۔

انہوں نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا، ”وہ ایک بہت مضبوط لیڈر ہیں۔ وہ ایک بہت سخت جگہ سے تعلق رکھتے ہیں، اور وہ ایک سخت آدمی ہیں۔‘‘

ٹرمپ نے مزید کہا، ”لوگ کہتے ہیں کہ ان کا ماضی مشکل رہا ہے، ہمارا سب کا رہا ہے… اور صاف طور پر، اگر آپ کا ماضی سخت نہ ہو، تو آپ کے پاس موقع ہی نہ ہوتا۔‘‘

ٹرمپ کے مطابق، شام ان کے مشرقِ وسطیٰ میں وسیع امن منصوبے کا ایک ”اہم حصہ‘‘ ہے۔ وہ امید کر رہے ہیں کہ یہ منصوبہ اسرائیل اور غزہ میں حماس کے درمیان نازک جنگ بندی کو مضبوط کرے گا۔

ٹرمپ نے ملاقات کے بعد اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر لکھا، ”ایک مستحکم اور کامیاب شام اس خطے کے تمام ممالک کے لیے نہایت اہم ہے۔‘‘

وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ اور احمد الشرع
صدر ٹرمپ نے احمد الشرع کے بارے میں کہا کہ وہ ایک بہت مضبوط لیڈر ہیں۔ وہ ایک بہت سخت جگہ سے تعلق رکھتے ہیں، اور وہ ایک سخت آدمی ہیںتصویر: SANA/AFP

’حیران کن تبدیلی‘

شامی صدر کا یہ دورہ ایک سابق جہادی کے لیے غیر معمولی تبدیلی کی علامت ہے، جس کے سر پر کبھی امریکہ نے 10 ملین ڈالر کا انعام رکھا تھا۔

ملاقات کے بعد کے ڈرامائی مناظر میں، الشرع اپنی گاڑی سے اتر کر وائٹ ہاؤس کے باہر حامیوں سے ملاقات کے لیے آگے بڑھے، جبکہ وہ چاروں طرف سے محافظوں کے حصار میں تھے۔

شامی صدارتی دفتر نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بتایا کہ الشرع اور ٹرمپ نے دو طرفہ تعلقات، انہیں مضبوط اور ترقی دینے کے طریقوں، اور متعدد علاقائی و بین الاقوامی امورِ باہمی دلچسپی پر گفتگو کی۔

بیان کے ساتھ جاری کی گئی تصاویر میں ٹرمپ کو اوول آفس میں اپنے ریزولیٹ ڈیسک کے پاس مسکراتے ہوئے الشرع سے ہاتھ ملاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

دیگر تصاویر میں شامی صدر کو ٹرمپ کے سامنے بیٹھے دکھایا گیا ہے، جبکہ ان کے ساتھ امریکی نائب صدر جے ڈی وینس، پینٹاگون کے سربراہ پیٹ ہیگسیتھ اور امریکی فوج کے اعلیٰ افسر ڈین کین بھی موجود تھے۔

احمد الشرع وائٹ ہاؤس کے باہر اپنے حامیوں کے استقبال کا جواب دے رہے ہیں
ایک وقت امریکہ نے الشرع پر 10 ملین ڈالر کا انعام رکھا تھاتصویر: Jacquelyn Martin/AP Photo/picture alliance

ملاقات کی اہمیت

اقتدار سنبھالنے کے بعد سے شام کی نئی قیادت نے اپنے پرُتشدد ماضی سے ناطہ توڑنے اور خود کو عام شامی عوام اور غیر ملکی طاقتوں کے سامنے ایک معتدل چہرے کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔

بین الاقوامی کرائسس گروپ کے امریکی پروگرام کے ڈائریکٹر مائیکل ہانا کے مطابق، الشرع کا وائٹ ہاؤس کا دورہ ”ملک کے نئے رہنما کے لیے ایک انتہائی علامتی لمحہ ہے، جو ایک جنگجو رہنما سے عالمی سیاستدان بننے کی اپنی حیران کن تبدیلی کا ایک اور سنگِ میل ہے۔‘‘

شامی صدر نے مئی میں امریکی صدر کے خطے کے دورے کے دوران پہلی بار سعودی عرب میں ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ اُس وقت 79 سالہ ٹرمپ نے 43 سالہ الشرع کو ”ایک نوجوان، پرکشش آدمی‘‘ قرار دیا تھا۔

شامی صدر نے حالیہ مہینوں میں امریکہ کے مخالف ممالک کے ساتھ بھی سفارتی رابطے بڑھائے ہیں۔

اکتوبر میں انہوں نے روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کی۔ یہ ان کی بشار الاسد کی برطرفی کے بعد پہلی ملاقات تھی، جو کریملن کے ایک قریبی اتحادی تصور کیے جاتے تھے۔

وائٹ ہاؤس کے باہر امریکی اور شامی پرچم لہرا رہے ہیں
شامی حکومت کے مطابق داعش مخالف معاہدہ فی الحال سیاسی نوعیت کا ہے اور اس میں کوئی فوجی شق شامل نہیںتصویر: Andrew Thomas/NurPhoto/IMAGO

اس وقت شام میں کیا ہو رہا ہے؟

الشرع کی حکومت اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط کر رہی ہے، تاہم اسے فرقہ وارانہ بدامنی کا سامنا ہے جس میں بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے کے بعد سے 2,500 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

رپورٹس کے مطابق، اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے ذریعے الشرع کے قتل کی دو سازشیں حالیہ مہینوں میں ناکام بنائی گئیں، جس کے بعد حکومت نے ملک بھر میں اس گروہ کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔

تاہم، شامی رہنما کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کی ایک نئی لہر دیکھنے میں آ رہی ہے، جس میں حکومت نواز سنی جنگجوؤں نے علوی اور دروز اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں شہریوں کو ہلاک کر دیا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button