
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں فحاشی اور بے حیائی کے مناظر، عوام میں تشویش کی لہر
"ہمارے کلچر میں تو میاں بیوی بھی بچوں کے سامنے ایک چارپائی پر اکٹھے نہیں بیٹھتے، مگر یہاں اسکرین پر ہر قسم کے غیر اخلاقی مناظر دکھائے جا رہے ہیں۔"
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں حالیہ برسوں میں بڑھتی ہوئی فحاشی، بے حیائی اور اخلاقی حدود کی خلاف ورزی نے عوام میں شدید تشویش پیدا کر دی ہے۔ سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں زیرِ گردش ایک حالیہ منظر میں اداکارہ صبا قمر کو اپنے شوہر کے کردار کے ساتھ انتہائی ڈرامائی انداز میں محبت اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے دکھایا گیا، جس نے کئی ناظرین کو حیران اور ناراض کر دیا۔
ناظرین کا ردعمل
عوامی حلقوں اور سوشل میڈیا صارفین نے اس منظر کو پاکستانی معاشرتی اقدار کے منافی قرار دیا ہے۔ ایک صارف نے کہا:
"ہمارے کلچر میں تو میاں بیوی بھی بچوں کے سامنے ایک چارپائی پر اکٹھے نہیں بیٹھتے، مگر یہاں اسکرین پر ہر قسم کے غیر اخلاقی مناظر دکھائے جا رہے ہیں۔”
عوام کا کہنا ہے کہ ڈراموں میں اس قسم کے مناظر ترقی کے نام پر عریانی اور بے حیائی کو فروغ دے رہے ہیں، اور یہ ایک اخلاقی بحران کی علامت بن سکتے ہیں۔
ڈرامہ انڈسٹری میں تبدیلیاں اور تنقید
ڈرامہ پروڈیوسرز اور ڈائریکٹرز نے گزشتہ کچھ سالوں میں موضوعات اور مناظر میں جدیدیت اور حقیقت پسندی لانے کے لیے کوششیں کی ہیں، لیکن تنقیدی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ حد سے زیادہ جارحانہ اور غیر موزوں مناظر کی طرف جا رہا ہے۔
سینئر سکرپٹ رائٹرز کا کہنا ہے کہ نوجوان پروڈیوسرز ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے فحش مناظر کو ترجیح دے رہے ہیں، جس سے معاشرتی اقدار متاثر ہو رہی ہیں۔
معاشرتی اور ثقافتی اثرات
ماہرین تعلیم اور سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ ٹیلویژن ڈرامے معاشرے پر گہرا اثر ڈال سکتے ہیں، خاص طور پر بچوں اور نوجوان نسل پر۔ اگر مسلسل فحاشی اور بے حیائی کے مناظر دکھائے جائیں تو یہ رویوں اور اقدار میں تبدیلی لا سکتے ہیں۔
ڈاکٹر عائشہ خان، سماجی ماہرہ کا کہنا ہے:
"ڈرامہ انڈسٹری میں موجود مناظر نوجوانوں کے ذہنوں اور اخلاقیات پر منفی اثر ڈال سکتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم کلچر اور اقدار کے مطابق مواد تیار کریں تاکہ معاشرتی ہم آہنگی برقرار رہے۔”
ریگولیٹری اقدامات کی ضرورت
پاکستان ٹیلیویژن اور دیگر پرائیویٹ چینلز کے ناظرین کی شکایات کے پیشِ نظر پرامن اور اخلاقی معیار کے مطابق پروگرامنگ کے لیے اقدامات کی ضرورت پر زور دیا جا رہا ہے۔ تنقیدی حلقوں کا کہنا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پی بی اے آر) اور ڈرامہ پروڈیوسرز کو چاہیے کہ وہ معاشرتی اقدار کا احترام کریں اور غیر اخلاقی مواد کی نشر و اشاعت پر قابو پائیں۔
نتیجہ
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری میں ترقی کے نام پر اخلاقی حدود کی خلاف ورزی ایک تشویشناک رجحان بن چکی ہے۔ عوام اور ماہرین دونوں یہ چاہتے ہیں کہ ڈرامے ہماری ثقافت، روایات اور اقدار کے مطابق ہوں، نہ کہ صرف ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کے لیے فحاشی کو بڑھاوا دیں۔
سوال یہ ہے کہ: کیا ڈرامہ انڈسٹری صرف ناظرین کی توجہ کے لیے اخلاقی حدود کو نظر انداز کر رہی ہے، یا کیا معاشرتی ذمہ داری کو بھی اپنی ترجیحات میں شامل کرے گی؟ یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس پر نہ صرف میڈیا بلکہ معاشرتی اداروں کو بھی غور و فکر کرنا ہوگا۔





