
بیروت میں اسرائیلی حملہ: حزب اللہ کے چیف آف اسٹاف ہيثم علی طباطبائی ہلاک — خطے میں کشیدگی نئی سطح پر پہنچ گئی
"اس ہدفی کارروائی کا مقصد تنظیم کی جنگی صلاحیت کو کمزور کرنا اور ریاستِ اسرائیل کو نقصان پہنچانے والوں کو حتمی ضرب لگانا تھا۔"
بیروت/یروشلم — مشرقِ وسطیٰ میں کشیدگی ایک بار پھر شدید ہو گئی ہے جب اسرائیل نے بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک ہدفی کارروائی کے دوران حزب اللہ کے اعلیٰ فوجی رہنما اور چیف آف اسٹاف ہیثم علی طباطبائی کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اس حملے کو خطے میں جاری پراکسی تصادم کا سب سے اہم واقعہ قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ طباطبائی کو تنظیم کا نہایت تجربہ کار اور مؤثر عسکری حکمت کار سمجھا جاتا تھا۔
اسرائیل ڈیفنس فورسز (IDF) نے ایک بیان میں طباطبائی کو "دہشت گرد تنظیم کا ایک اہم اور تجربہ کار آپریٹو” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کارروائی کا مقصد حزب اللہ کی عسکری صلاحیتوں کو مزید مضبوط ہونے سے روکنا تھا۔
اسرائیلی مؤقف: "جس نے اسرائیل کو نقصان پہنچایا، اسے سخت قیمت چکانی ہوگی”
آئی ڈی ایف کے چیف آف اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل ایال ضمیر نے کہا:
"اس ہدفی کارروائی کا مقصد تنظیم کی جنگی صلاحیت کو کمزور کرنا اور ریاستِ اسرائیل کو نقصان پہنچانے والوں کو حتمی ضرب لگانا تھا۔”
اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے دفتر نے بھی اس کارروائی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ طباطبائی کو "بیروت کے قلب میں” نشانہ بنایا گیا۔ بیان کے مطابق:
"طباطبائی تنظیم کی تعمیر اور اسلحہ جمع کرنے کی سرگرمیوں کی قیادت کرتا تھا۔”
اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے بھی سخت لہجے میں کہا:
"جو بھی اسرائیل کے خلاف ہاتھ اٹھائے گا، اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ ہم شمالی سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے ہر ممکن کارروائی جاری رکھیں گے۔”
حزب اللہ کا ردعمل: "غدارانہ اسرائیلی حملہ”
حزب اللہ نے اتوار کو جاری کردہ ایک بیان میں طباطبائی کی ہلاکت کی تصدیق کی اور اسرائیلی کارروائی کو "بیروت کے جنوبی مضافات میں ایک غدارانہ حملہ” قرار دیا۔
تنظیم کے مطابق، یہ حملہ حریت ہریک نامی محلے میں کیا گیا، جو حزب اللہ کا ایک مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
حزب اللہ نے اعلان کیا کہ اپنے سینئر رہنما کی ہلاکت کا بدلہ لیا جائے گا، تاہم تفصیلات جاری نہیں کی گئیں۔
بیروت پر حملے — اسرائیل کی بدلتی حکمت عملی
بیروت میں براہِ راست اسرائیلی حملے نسبتاً کم ہوتے ہیں۔ آخری مرتبہ اسرائیل نے جون 2024 میں حزب اللہ کے مبینہ زیرِ زمین ڈرون پلانٹس کو نشانہ بنایا تھا۔
تاہم تب سے اسرائیل بیروت پر حملوں سے گریز کرتا رہا، اگرچہ جنوبی لبنان—بالخصوص حزب اللہ کے مضبوط گڑھوں—پر حملے مسلسل جاری رہے۔
ستمبر 2024 میں ایک بڑے حملے میں حزب اللہ کے دیرینہ سربراہ حسن نصر اللہ مارے گئے تھے، جس کے بعد سے تنظیم کی عسکری قیادت کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اسرائیل نے حال ہی میں ایسے پیجرز اور واکی ٹاکیز پر حملے کیے تھے جنہیں حزب اللہ کے جنگجو استعمال کرتے تھے، جن کے نتیجے میں درجنوں اموات ہوئیں۔
امریکہ کا مؤقف: طباطبائی پہلے ہی عالمی مطلوب افراد میں شامل
امریکہ نے 2016 میں ہیثم علی طباطبائی کو باضابطہ طور پر دہشت گرد قرار دے دیا تھا اور انہیں حزب اللہ کی خصوصی افواج کا ایک اہم کمانڈر قرار دیا تھا جو شام اور یمن دونوں میں سرگرم تھے۔
امریکی "Rewards for Justice” پروگرام نے ان کے بارے میں معلومات فراہم کرنے پر 5 ملین ڈالر کے انعام کا اعلان کر رکھا تھا۔
جنگ بندی معاہدہ ناکام ہوتا ہوا؟ اسرائیلی انتباہات میں اضافہ
ایک سال قبل امریکہ کی ثالثی میں لبنان اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق ہوا تھا۔ معاہدے کے مطابق:
حزب اللہ نے لیتانی ندی کے جنوب سے تمام جنگجوؤں کو ہٹانا تھا۔
بھاری اسلحہ بھی ہتھیار ڈالنا تھا۔
لیکن اسرائیل کا کہنا ہے کہ حزب اللہ نے معاہدے پر بمشکل کوئی پیش رفت دکھائی ہے۔ اس کے برعکس تنظیم نے اپنی پوزیشنیں اور عسکری تنصیبات مزید پھیلا لی ہیں۔
اسرائیلی حکام نے خبردار کیا ہے کہ اگر لبنانی حکومت حزب اللہ کی سرگرمیوں پر کنٹرول نہ کر سکی تو فوجی کارروائی میں تیزی لائی جائے گی۔
لبنان کا ردعمل: اسرائیل کو معاہدے کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا
لبنان کے صدر جوزف عون نے اسرائیل کی کارروائیوں پر سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل "کسی بھی مذاکراتی تصفیے کو مسترد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔”
عون کے مطابق، اسرائیلی حملے خود جنگ بندی کے معاہدے کو کمزور کر رہے ہیں اور لبنان کو شدید عدم استحکام کی طرف دھکیل رہے ہیں۔
خطے میں نئی کشیدگی — کیا ایک اور بڑی جنگ قریب ہے؟
تجزیہ کاروں کے مطابق، طباطبائی کی ہلاکت نہ صرف حزب اللہ کے لیے بڑا دھچکا ہے بلکہ یہ کارروائی خطے میں ایک ممکنہ بڑے تصادم کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔
حزب اللہ کے پاس اب بھی ہزاروں راکٹ، سینکڑوں خصوصی فورسز کے جنگجو اور ایران کی واضح حمایت موجود ہے۔ دوسری طرف اسرائیل اس وقت اپنی شمالی سرحد کو "کسی بھی قیمت پر محفوظ” بنانے کے مؤقف پر قائم ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ ہدفی حملہ دونوں فریقین کے درمیان کھلی جنگ کو مزید قریب لے آیا ہے، یا یہ ایک محدود تنازعہ ہی رہے گا۔
آنے والے دن اس خطے کے لیے نہایت فیصلہ کن ثابت ہوسکتے ہیں۔



