
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) ایک بار پھر تنازعے کی زد میں آگئی ہے، کیونکہ کینیڈا سے فضائی عملے کے ’غائب‘ ہونے کا ایک اور واقعہ سامنے آیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ٹورونٹو سے لاہور آنے والی پرواز PK-798 کے ایک فضائی میزبان پرواز کے وقت ایئرپورٹ نہیں پہنچے اور اُن سے رابطے پر انہوں نے طبیعت خرابی کا مؤقف اختیار کیا۔
پی آئی اے انتظامیہ نے معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں اور امکان ہے کہ یہ ’غائب‘ ہونے کی ایک اور منظم کوشش ہو۔ انتظامیہ کے مطابق اگر عملے کے رکن کے غیر قانونی طور پر ’’غائب‘‘ ہونے کے شواہد ملے تو ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کی جائے گی۔
لگاتار بڑھتے واقعات—پی آئی اے کے عملے کا کینیڈا میں لاپتہ ہونا معمول بنتا جا رہا ہے
یہ پہلا واقعہ نہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں ایسے واقعات میں واضح اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ پی آئی اے کے مطابق اب تک 10 سے زائد کیبن کریو ارکان کینیڈا پہنچنے کے بعد واپس پاکستان نہیں لوٹے۔
فروری 2024 میں بھی پی کے 782 پر تعینات سٹیورڈ جبران بلوچ ٹورونٹو سے ’غائب‘ ہوگئے تھے۔ اس سے قبل ایئرہوسٹس مریم رضا اور فائزہ مختار بھی کینیڈا سے واپس نہیں آئی تھیں۔ سنہ 2023 کے آخری دو ماہ میں کم از کم چار عملے کے ارکان اسی طرح لاپتہ ہوئے تھے۔
کینیڈا—پی آئی اے عملے کے لیے ’غائب‘ ہونے کی پسندیدہ منزل کیوں؟
اس کے پیچھے کئی عوامل ہیں:
1. کینیڈا کے لبرل امیگریشن قوانین
کینیڈا میں پناہ (Asylum) سے متعلق قوانین نسبتاً نرم ہیں۔
امیگریشن اینڈ ریفیوجی پروٹیکشن ریگولیشن کے مطابق فلائٹ کریو کو کینیڈا آنے کے لیے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ جنرل ڈیکلریشن پر سفر کرتے ہیں۔

2. پناہ کی درخواست پر سالہا سال کا قانونی تحفظ
کینیڈا میں پناہ کی درخواست جمع کروانے کے بعد:
درخواست گزار ملک میں قیام اور ملازمت کا اہل ہوتا ہے
اسے میڈیکل سہولیات ملتی ہیں
درخواست مسترد ہونے پر وہ ریویو، اپیل، اور دوبارہ سماعت تک جا سکتا ہے
یہ پورا عمل کئی سال لے سکتا ہے
3. پہلے سے موجود منظم نیٹ ورک
کینیڈا میں موجود پاکستانی کمیونٹیز اور امیگریشن ایجنٹس کی مدد سے عملے کے ارکان پہلے سے منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ پی آئی اے کے ایک اہلکار کے مطابق:
’’غائب ہونے کا فیصلہ اچانک نہیں ہوتا، اس کے لیے کئی ماہ کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔‘‘
4. پاکستان میں معاشی بحران اور پی آئی اے کی نجکاری کا خوف
اقتصادی غیر یقینی، تنخواہوں میں بےقاعدگی اور ممکنہ نجکاری بھی عملے کے فیصلوں پر اثر ڈالتی ہے۔
کینیڈین حکام کی دلچسپ پوزیشن
کینیڈا کے پیل ریجنل پولیس کے مطابق انہیں کبھی پی آئی اے کے عملے کے لاپتہ ہونے کی مسنگ پرسن رپورٹ موصول نہیں ہوئی۔
کیونکہ:
عملہ خود غائب ہوتا ہے
خاندان والے بھی رپورٹ نہیں کرتے
کیس امیگریشن قوانین کے دائرے میں آ جاتا ہے
ایئرلائن صرف اتنا کرتی ہے کہ کینیڈا بارڈر سروسز ایجنسی کو اطلاع دے دے۔
کینیڈا میں پناہ کی بڑھتی درخواستیں — پاکستانی بھی نمایاں
سنہ 2023 میں کینیڈا میں پناہ کی درخواستوں نے تاریخی ریکارڈ توڑا:
144,000 سے زائد پناہ کی درخواستیں
ان میں 4,832 پاکستانی درخواستیں
یہ پچھلے سال کے مقابلے میں 60٪ اضافہ ہے
اس وقت 4,870 پاکستانی کیسز زیرِ التوا ہیں
پی آئی اے کی جانب سے کیے گئے اقدامات—لیکن بے اثر
پی آئی اے نے ماضی میں کئی کوششیں کیں:
کینیڈا میں پاسپورٹ اپنے پاس رکھنے کی پالیسی
نوجوان عملے کو کینیڈا نہ بھیجنے کا فیصلہ
بانڈ جمع کروانے کی شرط
خصوصی مانیٹرنگ سیل کا قیام
لیکن ایک اہلکار کے مطابق:
’’پاسپورٹ روکنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، پناہ کے لیے آنے والے لوگ سب سے پہلے پاسپورٹ ہی تلف کرتے ہیں۔‘‘
کیا حل ہے؟
پی آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا حل صرف:
پاکستان اور کینیڈا کے درمیان دوطرفہ معاہدہ
فلائٹ کریو کے لیے ویزا قوانین میں ترمیم
امیگریشن پروٹوکول میں سختی
سے ممکن ہے۔
پس پردہ حقیقت—یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں
امیگریشن ماہرین کہتے ہیں کہ:
بھارت، ایران، نائیجیریا اور میکسیکو سمیت کئی ملکوں کے افراد کینیڈا میں پناہ لینا چاہتے ہیں
کینیڈا میں پناہ لینے کا عمل ’’کاروبار‘‘ بن چکا ہے
شادی، سیاسی پناہ، مذہبی جواز اور جنسی شناخت جیسے دعوے عام ہیں
نتیجہ
کینیڈا میں پی آئی اے کریو کا مسلسل ’غائب‘ ہونا نہ صرف قومی ایئرلائن کے لیے شرمندگی کا باعث ہے بلکہ یہ عالمی سطح پر ملکی ساکھ پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔
پی آئی اے انتظامیہ متعدد اقدامات کے باوجود اس رجحان کو روکنے میں ناکام رہی ہے، جبکہ معاشی عدم استحکام اور کینیڈا کے لبرل امیگریشن قوانین اس مسئلے کو مزید پیچیدہ بنا رہے ہیں۔



