
مذہب کے نام پر خون: حقیقت، المیہ اور انسانیت کی آزمائش
Pew ریسرچ سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2019 میں بہت سے ممالک میں مذہب کے حوالے سے سماجی دشواریوں (social hostilities) میں کمی آئی تھی
دنیا کی تاریخ کا ایک سب سے پرشکوہ پہلو یہ ہے کہ مذہب، جو بنیادی طور پر امن اور اخلاق کی راہنما تعلیمات پر مبنی ہے، کبھی کبھی تشدد اور ہلاکت کا آلہ بن چکا ہے۔ مذہب کے نام پر ہونے والا قتل و غارت اور تشدد صرف ماضی کی داستان نہیں، بلکہ آج بھی حقیقی اور جارحانہ حقیقت ہے — اور اس کالم کا مقصد اسی حقیقت کو اجاگر کرنا، اس کی وجوہات پر غور کرنا اور انسانیت کی ذمہ داریوں کو سمجھنا ہے۔
مذہب کی بنیاد پر ہونے والی جنگیں اور تشدد دنیا کی تاریخ میں پیچھے سے چلتی ہیں: صلیبی جنگوں، مذہبی فسادات اور فرقہ وارانہ ہلاکتیں مثالیں ہیں کہ مذہب کس طرح انسانی المیے کا باعث بنا ہے۔ 1984 میں بھارت میں سکھوں پر ہونے والا قتل عام (Sikh Genocide) ایک المناک واقعہ ہے، جہاں سیکڑوں سکھ شہری مارے گئے تھے۔
اسی طرح، 2002 میں گجرات (بھارت) میں فرقہ وارانہ ہنگامے ہوئے جن میں خاص طور پر مسلمانوں کو نشانہ بنایا گیا تھا، متعدد اموات اور عمارتوں کا نقصان ہوا۔
آج بھی مذہب کی آڑ میں ہونے والی تشدد کی وارداتیں جاری ہیں۔ مثال کے طور پر، عراق میں 2010 میں بغداد کی ایک کیتھولک چرچ پر حملہ ہوا، جہاں متعدد افراد ہلاک اور زخمی ہوئے۔
نیجیریا میں بھی مذہبی بنیاد پر تشدد قابلِ غور ہے: سیاہ فام ملک میں فرقہ وارانہ فسادات، مذہبی انتہا پسندی اور مسیحیوں پر حملے رپورٹ کیے گئے ہیں، جن کی وجہ سے ہزاروں جانیں ضائع ہوئی ہیں۔
مثال کے طور پر، کرسمس 2011 کو بکو حرام نے چرچ کو نشانہ بنایا، جس میں متعدد نمازی مارے گئے۔
Pew ریسرچ سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق، 2019 میں بہت سے ممالک میں مذہب کے حوالے سے سماجی دشواریوں (social hostilities) میں کمی آئی تھی، لیکن حکومتی پابندیاں (مثلاً مذہبی گروپوں پر کنٹرول یا مذہبی اظہار پر پابندی) بدستور اعلیٰ سطح پر تھیں۔
اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ کچھ ممالک میں مذہب سے منسلک دہشت گردی کی صورت گری اب بھی ایک اہم مسئلہ ہے, اور اس قسم کے دہشت گردی کی وارداتیں “سماجی دشمنی” (social hostilities) کی ایک شکل ہیں۔
پاکستان میں توہین مذہب کے الزام میں کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ گزشتہ تین برسوں میں، سوشل میڈیا پر کم از کم 256 کیسز رپورٹ کیے گئے، مگر ان میں سے صرف ایک کیس پر سزا دی گئی۔
پنجاب (پاکستان) میں متشدد سوچ اور فرقہ وارانہ تشدد کے باعث، توہین مذہب کے الزامات پر زندگی کی قیمت ادا کرنے والوں کی داستانیں ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق، 1947 سے 2021 کے درمیان ایسے متعدد واقعات پیش آئے جہاں مذہبی الزام نے تشدد کو ہوا دی۔
مذہب کو بعض سیاسی لیڈروں یا انتہا پسند گروہوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا ہے۔ مذہب کو ایک سیاسی آلہ بنایا جاتا ہے تاکہ عوامی جذبات کو بھڑکایا جائے، اقتدار حاصل کیا جائے، یا معاشرتی تقسیم کو گہرا کیا جائے۔ پاکستان میں “اتحادِ امت” اور دیگر مکاتب فکر کے رہنماؤں نے واضح طور پر کہا ہے کہ مذہب کے نام پر تشدد اور دہشت گردی اسلام کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
مذہب کے نام پر ہونے والا تشدد صرف جان کا مسئلہ نہیں — یہ معاشرتی انتشار، اقتصادی تباہی اور انسانی ذہنی زخموں کا باعث ہوتا ہے:
خوف اور بداعتمادی:مذاہب کے مختلف مکاتبِ فکر کے درمیان نفرت بڑھتی ہے، لوگ ایک دوسرے پر شک کرنے لگتے ہیں، اور معاشرہ تقسیم ہو جاتا ہے۔
اقتصادی بوجھ:فرقہ وارانہ فسادات یا دہشت گردانہ واقعات کے بعد معیشت کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے — تباہ شدہ انفراسٹرکچر، متاثرین کی بحالی اور دوبارہ تعمیر پر اخراجات بڑھ جاتے ہیں۔
انسانی غم و صدمہ: وہ خاندان جو مذہبی بنیاد پر مارے جانے والے اپنے عزیزوں کی یاد میں رہتے ہیں، ان کا زخم جز وقتی نہیں بلکہ نسلوں میں رلاتا ہے۔
ایک اہم پہلو یہ ہے کہ نہ ہمیشہ مذہب خود تشدد کی بنیادی وجہ ہوتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ بہت سے تنازعات میں سیاسی، اقتصادی اور علاقائی مفادات مذہب کی سطح پر جھوٹے غلاف کے پیچھے کام کر رہے ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر، ایک مطالعہ میں بتایا گیا ہے کہ تاریخ کی صرف تقریباً ۶٪ جنگیں مذہبی محرکات کی بنیاد پر تھیں، باقی جنگیں زیادہ تر سیاسی یا معاشی مفادات کی وجہ سے تھیں۔
یہ اشارہ کرتا ہے کہ بعض اوقات مذہب صرف تشدد کو جواز دینے کا ایک بہانہ بنتا ہے۔
مذہب کے نام پر ہونے والی ہلاکتوں کو روکنے کے لیے ہمیں چند بنیادی اقدامات اپنانے ہوں گے:
مذہبی رہنما اور معاشرتی ادارے مل کر بچوں اور نوجوانوں کو یہ سکھائیں کہ مذہب تشدد کا ذریعہ نہیں، بلکہ انسانی فلاح اور ہم آہنگی کا راستہ ہے۔
مختلف مذاہب کے مؤمن مل کر سیکولر اور مذہبی مکالمے کا فروغ دیں تاکہ اختلافات کو نفرت کی بجائے سمجھ بوجھ سے حل کیا جائے۔
ریاستوں کو مذہبی بنیاد پر ہونے والے جرائم کو سنجیدہ لینا چاہیے۔ تشدد یا نفرت پر مبنی مذہبی اقدامات کے خلاف مضبوط قانونی اور عدالتی ادارے قائم کیے جائیں۔
سیاسی لیڈروں کو مذہب کو طاقت کے لیے آلہ بنانے کی بجائے امن اور اتحاد کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔ مذہبی فہم کو تشہیر کرنے والے رہنماؤں کو سرِ فہرست لانا وقت کی ضرورت ہے۔
مذہب اگر انسانیت کی ترقی اور امن کا ذریعہ بنے تو وہ روشنی کی مثل ہے۔ مگر جب مذہب کو سیاسی طاقت، نفرت اور تشدد کے آلے کے طور پر استعمال کیا جائے تو وہ اندھیری راہ کی نمائندگی کرتا ہے۔
ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مذہب خود کوئی دشمنی نہیں، بلکہ انسانی نفسیات اور طاقت کی خواہشات کا عکاس بن سکتا ہے۔ اگر ہم واقعی ترقی اور امن چاہتے ہیں، تو ہمیں مذہب کو اس کی اصل روح — امن، محبت اور رہنمائی — کی جانب لانا ہوگا۔ اور یہ صرف ممکن ہے جب ہم تعلیم، مکالمہ اور انصاف کو اپنا ہتھیار بنائیں۔


