
غزہ جنگ کے بعد خطے کی نئی سیاسی ترتیب: حماس کا سیاسی جماعت کے طور پر ازسرِ نو تنظیم کا آغاز
پی ایل او میں شمولیت اور فلسطینی مفاہمت کی تجویز — الشرق الاوسط کی رپورٹ
رام اللہ / غزہ / قاہرہ — مشرقِ وسطیٰ میں بڑے جغرافیائی و سیاسی تغیرات کے پس منظر میں فلسطینی اسلامی تحریک حماس ایک منظم سیاسی جماعت کے طور پر دوبارہ ابھرنے کی تیاری کر رہی ہے۔ عرب اخبار الشرق الاوسط نے معتبر ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ حماس کے سینئر رہنماؤں نے ایک تفصیلی پالیسی دستاویز کا مسودہ تیار کیا ہے جس میں تحریک کو ایک ’’مکمل سیاسی جماعت‘‘ میں تبدیل کرنے اور فلسطینی سیاسی نظام میں فعال کردار ادا کرنے کا لائحہ عمل شامل ہے۔
حماس کی نئی دستاویز — ’’جامع فلسطینی مفاہمت‘‘ اور پی ایل او میں شمولیت
ذرائع کے مطابق مسودہ دستاویز میں تین بڑے نکات نمایاں ہیں:
جامع فلسطینی مفاہمت کی ضرورت
فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) میں شمولیت
پی ایل او کی اصلاح کے عمل میں فعال شرکت
دستاویز کے مطابق مستقبل میں حماس ایک ایسی جماعت کے طور پر سامنے آئے گی جو:
’’سیاست، معیشت اور سماجی شعبوں میں بطور متحرک قوت حصہ لے سکے اور جدید فلسطینی ریاست کے قیام کی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرے۔‘‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ اقدام غزہ جنگ کے بعد خطے میں پیدا ہونے والی نئی حقیقت کے تناظر میں مرحلہ وار سیاسی منتقلی کی کوشش ہے، جس کے ذریعے حماس اپنے نظریاتی اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے نئے سیاسی ماحول میں جگہ بنا سکے گی۔
یہ دستاویز حماس کے:
سیاسی بیورو
شوریٰ کونسل
اور دیگر اعلیٰ سطحی اداروں
کو منظوری کے لیے بھیج دی گئی ہے۔
غزہ جنگ بندی اور نئے مذاکراتی رجحانات
6 اکتوبر کو اسرائیل اور حماس نے مصر، قطر، امریکہ اور ترکی کی ثالثی میں بالواسطہ مذاکرات کا دوبارہ آغاز کیا تھا، جو کئی ماہ سے تعطل کا شکار تھے۔
بعد ازاں 9 اکتوبر کو فریقین نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پیش کردہ غزہ جنگ بندی منصوبے کے پہلے مرحلے پر دستخط کیے، جس کے تحت:
قیدیوں کے محدود تبادلے
انسانی امداد کے روٹ کھولنے
سویلین ہلاکتوں میں کمی
اور جنگی کارروائیوں کے عارضی تعطل
جیسے اقدامات شامل تھے۔
جنگ بندی 10 اکتوبر کو نافذ ہوئی، جس نے خطے میں سیاسی عمل کے دوبارہ آغاز کی راہ ہموار کی۔
سیاسی تجزیہ — کیا حماس مکمل سیاسی دھارے میں شامل ہونے جا رہی ہے؟
مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق حماس کی جانب سے یہ دستاویز غیر معمولی اہمیت کی حامل ہے، کیونکہ:
پی ایل او میں شمولیت کی حماس کی دیرینہ خواہش ہمیشہ سیاسی اختلافات اور تنظیمی ڈھانچے کی پیچیدگیوں کی وجہ سے تعطل کا شکار رہی ہے۔
اگر حماس سیاسی جماعت میں تبدیل ہوتی ہے تو یہ فلسطینی سیاست کے لیے ’’تاریخی موڑ‘‘ ہوسکتا ہے۔
یہ اقدام فلسطینی دھڑوں—بالخصوص حماس اور فتح—کے درمیان مفاہمت کی نئی راہیں کھول سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ اور اس کے بعد کے سفارتی عمل نے حماس کو یہ احساس دلایا ہے کہ:
مکمل عسکری مزاحمت کے بجائے سیاسی نظام میں شمولیت
عالمی اور علاقائی حمایت حاصل کرنے
اور مستقبل کی فلسطینی ریاست کے سیاسی سیٹ اپ میں کردار قائم رکھنے
کا موثر راستہ بن سکتا ہے۔
غزہ جنگ کے بعد فلسطینی سیاسی منظرنامے میں تبدیلی
خطے میں بڑھتی ہوئی سفارتی سرگرمیوں کے باعث فلسطینی سیاست میں بڑی تبدیلیاں متوقع ہیں:
غزہ کی جنگ نے فلسطینی اتھارٹی کی پوزیشن کمزور کر دی
عرب ممالک ’’متحدہ فلسطینی نمائندگی‘‘ پر زور دے رہے ہیں
عالمی طاقتیں فلسطینی ریاست کی طرف ’’مرحلہ وار سیاسی عمل‘‘ کی خواہاں ہیں
اسرائیل پر جنگ بندی برقرار رکھنے کا دباؤ بڑھتا جا رہا ہے
ان حالات میں حماس کا نیا سیاسی ماڈل مستقبل کے فلسطینی سیاسی نقشے کی تشکیل میں مرکزی کردار ادا کر سکتا ہے۔
نتیجہ
الشرق الاوسط کی رپورٹ کے مطابق حماس کی جانب سے پیش کی گئی نئی دستاویز فلسطینی سیاست میں ممکنہ تاریخی تبدیلی کی نشاندہی کرتی ہے۔
اگر حماس واقعی سیاسی جماعت کے طور پر خود کو ترتیب دیتی ہے، پی ایل او میں شامل ہوتی ہے، اور فلسطینی مفاہمت کے لیے آگے بڑھتی ہے تو:
فلسطینی اتحاد کی راہ ہموار ہو سکتی ہے
مشرقِ وسطیٰ کے امن عمل میں نئی پیشرفت ممکن ہو سکتی ہے
اور غزہ جنگ کے بعد خطے کی سیاسی شکل تبدیل ہوسکتی ہے
اگلے چند ہفتوں میں اس دستاویز پر حماس کی اعلیٰ قیادت کے فیصلے اور بین الاقوامی ردعمل سے صورتحال مزید واضح ہو جائے



