پاکستاناہم خبریں

افغانستان میں دہشت گردی کے مراکز موجود ہیں، افغان طالبان سے دہشت گردوں کی سہولت کاری بند کرنے کا مطالبہ،ڈی جی آئی ایس پی آر

یہ بیان 25 نومبر کو دی گئی صحافیوں کی ایک بریفنگ میں دیا گیا تھا، جس کی ویڈیو 28 نومبر کو جاری کی گئی

وائس آف جرمنی اردو نیوز.پاکستان نیوز ڈیسک

اسلام آباد: پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کے مراکز اور القاعدہ، داعش سمیت مختلف دہشت گرد تنظیموں کی قیادت موجود ہے، جو پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی کارروائیاں کر رہی ہیں۔ انہوں نے افغان طالبان حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کی سہولت کاری کو فوراً بند کریں۔

یہ بیان 25 نومبر کو دی گئی صحافیوں کی ایک بریفنگ میں دیا گیا تھا، جس کی ویڈیو 28 نومبر کو جاری کی گئی۔ اس دوران ڈی جی آئی ایس پی آر نے افغان طالبان کے موقف پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ارکان افغان شہری ہیں، جو ہجرت کر کے افغانستان آئے ہیں۔ تاہم، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ "اگر وہ پاکستانی شہری ہیں، تو انہیں پاکستان کے حوالے کیا جائے”۔ انہوں نے اس بات پر بھی سوال کیا کہ "کیسے یہ افراد مہمان بن کر پاکستان میں آ کر دہشت گردی کرتے ہیں؟”

افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کا نیٹ ورک

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے مزید کہا کہ افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی قیادت موجود ہے اور ان کے نیٹ ورک کی وجہ سے پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیاں جاری ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ ان دہشت گرد گروپوں کو افغانستان سے اسلحہ اور فنڈنگ ملتی ہے، جو پاکستان کے خلاف استعمال کی جاتی ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس بات کو اجاگر کیا کہ پاکستان نے افغانستان کے سامنے اس بات کے ثبوت پیش کیے ہیں کہ دہشت گردوں کی سرپرستی جاری ہے، اور افغان طالبان حکام کو ان ثبوتوں کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ "ہم نے افغانستان کے سامنے تمام ثبوت رکھے ہیں جنہیں وہ نظرانداز نہیں کر سکتے”، انہوں نے کہا۔

افغانستان سے انخلا کے بعد اسلحہ کی اسمگلنگ

افغانستان میں امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے بعد وہاں چھوڑے گئے اسلحے کے بارے میں بات کرتے ہوئے، لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے کہا کہ سات ارب ڈالر سے زائد کا اسلحہ افغانستان میں چھوڑا گیا تھا، اور اب یہ اسلحہ دہشت گردی میں استعمال ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اسلحہ پاکستان میں دہشت گرد حملوں میں استعمال ہو رہا ہے، اور اس کا فوری تدارک ضروری ہے۔

بارڈر مینجمنٹ پر پروپیگنڈا اور سرحدی کنٹرول کی مشکلات

ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس بات پر بھی تنقید کی کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بارڈر مینجمنٹ پر پروپیگنڈا کیا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ "پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحد انتہائی دشوار گزار راستوں پر مشتمل ہے، جہاں 20 کراسنگ پوائنٹس موجود ہیں، اور سرحدی چوکیاں 20 سے 25 کلومیٹر کے فاصلے پر ہیں۔” ان کے مطابق، آبزرویشن اور فائر کور کے بغیر بارڈر فینس مؤثر نہیں ہو سکتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ خیبرپختونخوا میں سرحد کے قریب منقسم گاؤں کی موجودگی کی وجہ سے سرحدی علاقے میں آمد و رفت کو کنٹرول کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ "پنجاب اور سندھ کے برعکس، خیبرپختونخوا میں بارڈر کے اطراف منقسم گاؤں موجود ہیں، جو سرحد پر کنٹرول کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔”

دہشت گردی کے خلاف نیشنل ایکشن پلان کا نفاذ

ڈی جی آئی ایس پی آر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دہشت گردی پر تمام حکومتوں اور سیاسی پارٹیوں کا اتفاق ہے کہ اس کا حل نیشنل ایکشن پلان (نیپ) میں ہے۔ انہوں نے بلوچستان میں نیشنل ایکشن پلان کے تحت ایک مربوط نظام کے نفاذ کی بات کی، جس کے ذریعے ضلعی، ڈویژنل اور صوبائی سطح پر سٹیرنگ، مانیٹرنگ اور عمل درآمد کمیٹیاں تشکیل دی گئی ہیں۔ تاہم، انہوں نے خیبرپختونخوا میں اس نظام کی کمی محسوس کی اور کہا کہ وہاں اس پر عمل درآمد میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔

دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائیاں

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے دہشت گردوں کے خلاف فوجی کارروائیوں کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ رواں سال پاکستان میں مجموعی طور پر 1,873 دہشت گردوں کو ہلاک کیا گیا، جن میں 136 افغان باشندے بھی شامل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اپنی سرزمین پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھے گا اور اس ضمن میں افغان حکام سے مزید تعاون کی توقع رکھتا ہے۔

جنگ بندی اور دہشت گرد گروپوں کی سرگرمیاں

جمعہ کے روز دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر حسین اندرابی نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ "پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی کا مطلب یہ تھا کہ افغانستان کی سرپرستی میں کام کرنے والے دہشت گرد گروہ پاکستان میں حملے نہیں کریں گے۔” تاہم، انہوں نے کہا کہ اس سیز فائر کے بعد بھی بڑے دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں، جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جنگ بندی برقرار نہیں ہے۔

نتیجہ: پاکستان کی سلامتی کے لیے افغان طالبان سے مزید تعاون کی ضرورت

ڈی جی آئی ایس پی آر کے اس بیان سے یہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستان افغان طالبان حکام سے دہشت گردوں کی سرپرستی اور سہولت کاری کو روکنے کے لیے مزید تعاون کی توقع رکھتا ہے۔ پاکستان کے قومی سلامتی کے اداروں کا موقف ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے مراکز کی موجودگی اور ان دہشت گرد گروپوں کو حاصل ہونے والی حمایت سے نمٹنے کے لیے افغان حکام کو ٹھوس اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ پاکستان کے لیے اپنی سرزمین پر دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنا ایک انتہائی اہم معاملہ ہے، اور اس کے لیے افغان طالبان کی جانب سے حمایت کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان امن و استحکام قائم ہو سکے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button