
سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی صحت کے بارے میں افواہوں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ بالاخر اس وقت ختم ہو گیا جب ان کی بہن عظمیٰ خان نے اڈیارہ جیل میں ان سے ملاقات کی اور بعد ازاں یہ تصدیق کی کہ عمران خان بالکل صحت مند ہیں۔
منگل کے روز عظمیٰ خان نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عمران خان کا صحتیابی کے حوالے سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ان کی ملاقات کے دوران عمران خان نے اپنے کمرے میں محدودیت اور ذہنی اذیت کے بارے میں بھی شکایت کی۔ عظمیٰ خان کے مطابق، عمران خان نے کہا کہ انہیں مسلسل ذہنی دباؤ کا سامنا ہے، اور جیل میں انہیں تمام دن کمرے میں بند رکھا جاتا ہے۔ صرف کچھ گھنٹوں کے لیے باہر جانے کی اجازت ملتی ہے، تاہم کسی سے بات چیت کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔
عظمیٰ خان نے مزید کہا کہ عمران خان نے اس سلوک کا ذمہ دار فوجی حکام میں اعلیٰ عہدہ رکھنے والے فیلڈ مارشل عاصم منیر کو ٹھہرایا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کا دعویٰ تھا کہ یہ تمام اقدامات ان کی سیاسی سرگرمیوں کو روکنے اور ان پر دباؤ ڈالنے کے لیے کیے جا رہے ہیں۔

جیل کی ملاقاتوں پر پابندیاں
عمران خان کی ملاقاتوں کے حوالے سے جیل انتظامیہ نے بھی کچھ نئی پابندیاں عائد کی ہیں، جس کے تحت ملاقاتوں کے دوران کسی قسم کی سیاسی گفتگو کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ جیل حکام نے یہ شرط رکھی ہے کہ اگر ملاقات کے بعد کسی قسم کی سیاسی سرگرمی یا بیانات دیے گئے تو اس فیصلے پر نظر ثانی کی جا سکتی ہے۔
سیاسی احتجاج کی کال
عمران خان کی صحت اور جیل میں ہونے والے سلوک کے حوالے سے پی ٹی آئی کی قیادت اور ان کے اہل خانہ مسلسل احتجاجی بیانات دے رہے ہیں۔ پی ٹی آئی نے اپنے رہنماؤں کی جانب سے اسلام آباد اور راولپنڈی میں منگل کے روز احتجاجی مظاہروں کی کال بھی دی تھی، جس میں کارکنوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ عمران خان کے ساتھ ہونے والی غیر انسانی سلوک کے خلاف آواز اٹھائیں۔
افواہیں اور قیاس آرائیاں
عمران خان کی گرفتاری اور ان کی جیل میں منتقلی کے بعد سے مختلف قسم کی افواہیں گردش کر رہی تھیں، جن میں ان کی صحت کے بارے میں خدشات بھی شامل تھے۔ پی ٹی آئی کی جانب سے ان کی صحت کے حوالے سے مسلسل وضاحت دینے کے باوجود، میڈیا اور سوشل میڈیا پر ان کے زندہ ہونے یا نہ ہونے کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں۔ تاہم، عظمیٰ خان کی ملاقات کے بعد ان تمام افواہوں کا خاتمہ ہوگیا ہے اور یہ تصدیق ہو گئی کہ عمران خان مکمل طور پر صحت مند ہیں، لیکن جیل میں ان کے ساتھ ہونے والے سلوک کے حوالے سے تشویش برقرار ہے۔
حکومتی موقف
حکومت کی جانب سے اس حوالے سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ عمران خان کی صحت مکمل طور پر ٹھیک ہے اور انہیں کسی بھی قسم کی کوئی طبی دشواری نہیں ہو رہی ہے۔ حکومتی ذرائع نے ہمیشہ یہ دعویٰ کیا ہے کہ عمران خان کو تمام طبی سہولتیں فراہم کی جا رہی ہیں، تاہم پی ٹی آئی اور خان کے اہل خانہ کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جیل میں ان کی زندگی انتہائی مشکل بنادی گئی ہے۔
آنے والے دنوں میں سیاسی تناؤ کی پیش گوئی
سیاسی حلقوں میں یہ توقع کی جا رہی ہے کہ عمران خان کی جیل سے رہائی یا ان کے ساتھ ہونے والے سلوک پر مزید سیاسی بحث چھڑ سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنے کارکنوں کو تیار کر لیا ہے کہ وہ اس مسئلے پر حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوں گے۔
خلاصہ
عمران خان کی بہن عظمیٰ خان کی ملاقات کے بعد ان کی صحت کے حوالے سے تمام قیاس آرائیاں اور افواہیں ختم ہو گئیں ہیں، تاہم جیل میں ان کے ساتھ ہونے والے سلوک اور ملاقاتوں کی پابندیوں پر سیاسی تناؤ جاری ہے۔ ان تمام معاملات کے ساتھ، یہ واضح ہو چکا ہے کہ عمران خان کی جیل میں موجودگی اور ان کے ساتھ برتاؤ ملکی سیاست میں ایک نیا موڑ لے سکتا ہے۔



