
غزہ: اسرائیلی ڈرون حملے میں دو فلسطینی بچے اپنے والد کے لیے لکڑیاں جمع کرتے ہوئے ہلاک
میں نے کفن اتار کر انہیں گلے لگایا۔ میرے چھوٹے ججو کا سر اڑا ہوا تھا, بچوں کا باپ
خان یونس: اسرائیلی ڈرون کے حملے میں دو فلسطینی بچے، جو اپنے والد کے لیے لکڑیاں جمع کر رہے تھے، ہلاک ہو گئے۔ یہ واقعہ غزہ کے جنوبی علاقے خان یونس میں پیش آیا، جہاں 8 سالہ فادی اور 10 سالہ جمعہ اپنے مفلوج والد کے لیے لکڑیاں جمع کرنے باہر گئے تھے، مگر وہ کبھی واپس نہیں آئے۔ ان کے والد، تیمر ابو آسی، ناشتہ بنا رہے تھے اور بچوں کا انتظار کر رہے تھے، مگر جب ایک مقامی رہائشی نے آ کر بتایا کہ دونوں بچوں کو اسرائیلی فوجیوں نے نشانہ بنا کر مار دیا ہے، تو ان کے لیے یہ صدمہ ناقابل برداشت تھا۔
والد کی اذیت ناک منظر کی تفصیل:
ابو آسی نے بتایا کہ وہ بچوں کی لاشوں کی شناخت کرنے گئے تو ایک دل دہلا دینے والی منظر ان کے سامنے آیا۔ "میں نے کفن اتار کر انہیں گلے لگایا۔ میرے چھوٹے ججو کا سر اڑا ہوا تھا؛ خدا اس کی روح کو سکون دے… اس کے بازو کٹے ہوئے تھے اور اس کے دھڑ کے کچھ حصے گئے تھے،” ابو آسی نے کانپتے ہوئے کہا۔ ان کے مطابق، فادی کا دایاں ہاتھ اور بائیں ٹانگ کاٹ دی گئی تھی۔
اسرائیلی فوج کا موقف:
اسرائیل ڈیفنس فورسز (IDF) نے اس حملے کا اعتراف کیا اور اپنے بیان میں کہا کہ دونوں بچے "مشتبہ افراد” تھے جو "پیلی لکیر” (یلو لائن) کو عبور کر کے اسرائیلی فوجیوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ IDF کے مطابق، بچوں کو "فوری خطرہ” سمجھا گیا اور ان کو "ختم کر دیا گیا”۔ اسرائیلی بیان میں مزید کہا گیا کہ ان بچوں کے متعلق معلومات فراہم کی گئی تھیں اور فوج نے ان کے خلاف ایکشن لیا۔
غزہ میں انسانی حقوق کی صورتحال:
اس واقعہ نے غزہ میں اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کے سلسلے کو مزید شدت دے دی ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں حماس کے حملے کے بعد سے غزہ میں 70,000 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں 10,000 سے زائد خواتین اور 20,000 بچے شامل ہیں۔ غزہ میں مسلسل جاری اس انسانی المیے نے عالمی برادری کی تشویش بڑھا دی ہے۔ جنگ بندی کے بعد بھی اسرائیلی فوج کی کارروائیاں جاری ہیں، اور 600 سے زائد لاشیں ملبے سے نکالی جا چکی ہیں۔ غزہ کے سول ڈیفنس کا اندازہ ہے کہ 10,000 افراد ابھی بھی ملبے تلے دبے ہوئے ہیں۔
اسرائیل کے خلاف انسانی حقوق کی رپورٹ:
اس واقعے کے ایک دن بعد، اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیموں نے غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر ایک رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ 2025 میں جنگ کی نوعیت میں ایک گہری تبدیلی آئی ہے، جس میں اسرائیلی فورسز نے اپنے آپریشنز میں معیاری طریقہ کار کے طور پر فلسطینیوں کے حقوق کی بڑے پیمانے پر پامالی شروع کر دی ہے۔ رپورٹ میں ان اقدامات کو "وسیع، گہرا اور بے مثال نقصان” قرار دیا گیا ہے۔
والد کی آخری باتیں:
فادی اور جمعہ کے والد، تیمر ابو آسی، اپنی آخری یادیں بیان کرتے ہوئے آنکھوں میں آنسو لیے ہوئے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ اگلے دن وہ اپنے بچوں کے ساتھ میڈیکل چیک اپ پر جا کر ان کے پسندیدہ گانے گانے والے تھے۔ "میں نے اس سے کہا، میرے ساتھ چیک اپ کے لیے آؤ اور میں تمہارے لیے تمہارے تمام پسندیدہ گانے گاؤں گا، میرے بیٹے۔” ابو آسی کی یہ آخری باتیں اور بچوں کے لیے دل کی گہرائیوں سے کی جانے والی دعا نے ان کے دکھ کو مزید گہرا کر دیا۔
فلسطینی عوام کی حمایت:
غزہ کے لوگ اس وقت ایک بہت بڑے بحران کا سامنا کر رہے ہیں اور عالمی سطح پر فلسطینیوں کی حمایت کا مطالبہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ فلسطینی عوام کی ایک بڑی تعداد نے اسرائیلی حملوں کی مذمت کرتے ہوئے ان کے خلاف احتجاج کیا ہے اور عالمی برادری سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ غزہ میں ہونے والی ہلاکتوں کا نوٹس لے اور اسرائیل کے اقدامات کو روکنے کے لیے فوری طور پر اقدامات کرے۔
دنیا کے سامنے فلسطینیوں کا درد:
یہ واقعہ صرف ایک دلخراش کہانی نہیں بلکہ فلسطینیوں کے مسلسل اذیت ناک حالات کا حصہ ہے، جہاں روزانہ کی بنیاد پر ایسے واقعات پیش آ رہے ہیں جو انسانیت کو شرمندہ کرتے ہیں۔ یہ خبر عالمی سطح پر فلسطینیوں کی جدوجہد اور ان کے خلاف ہونے والی غیر انسانی کارروائیوں کی غماز ہے۔
فادی اور جمعہ کی موت نے غزہ میں فلسطینی خاندانوں کے درد میں مزید اضافہ کیا ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت کو اجاگر کرتی ہے جس پر عالمی برادری کو فوری طور پر توجہ دینی چاہیے۔ اس وقت فلسطینیوں کی سب سے بڑی ضرورت امن، انصاف اور عالمی حمایت ہے تاکہ ان کے حقوق کا تحفظ کیا جا سکے اور ان کے خاندانوں کو اس طرح کے ظلم و ستم سے بچایا جا سکے۔



