
عراق سے ترکی خام تیل کی برآمد کرنے والی پائپ لائن کی بحالی: ایران کے اثر و رسوخ کے مقابلے میں امریکی غلبے کی ایک نئی مثال
جولائی 2025 میں ایرانی ساختہ ڈرونز کے ذریعے امریکی کمپنیوں کے زیر انتظام چلنے والی تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا
بغداد: عراق کی ترکی کے لیے خام تیل برآمد کرنے والی اہم پائپ لائن کی بحالی نے ملک میں طاقت کے توازن کو تبدیل کر دیا ہے اور اس سے ایران کے اثر و رسوخ کے مقابلے میں امریکی غلبے کی عکاسی ہو رہی ہے۔ یہ پائپ لائن دو سال سے زائد عرصے تک بند رہی تھی اور اس کی بحالی عراق میں ایران نواز ملیشیاؤں کے مالی وسائل پر ایک ضرب سمجھی جا رہی ہے۔
پائپ لائن کی بحالی کے دوران ایک اور اہم واقعہ پیش آیا جس سے اس مسئلے کی پیچیدگی اور اس کی عالمی اہمیت اجاگر ہوئی۔ عراق کے نیم خودمختار کردستان ریجن کے پہاڑی علاقے میں جولائی 2025 میں ایرانی ساختہ ڈرونز کے ذریعے امریکی کمپنیوں کے زیر انتظام چلنے والی تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنایا گیا۔ ان حملوں کا مقصد امریکی مفادات کو نقصان پہنچانا اور ایران کے اثر و رسوخ کو بڑھانا تھا۔
ڈرون حملے اور امریکی ردعمل
ان حملوں میں ایک ڈرون نے عراق کے سارسانگ تیل فیلڈ کو نشانہ بنایا، جبکہ دوسرا ڈرون اسی علاقے میں ایک اور امریکی کمپنی کے زیر انتظام آئل فیلڈ پر حملہ آور ہوا۔ ان حملوں کی وجہ سے مقامی کمپنی اور ناروے کی ڈی این او کی سرگرمیاں متاثر ہوئیں اور کردستان میں تیل کی پیداوار تقریباً نصف تک رک گئی۔ امریکی حکومت اس حملے سے اس قدر مشتعل ہوئی کہ اس نے عراق پر فوری طور پر دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔
پائپ لائن کی دوبارہ بحالی کا فیصلہ
امریکی حکومت کی جانب سے دباؤ بڑھنے کے بعد، عراق نے 2.5 سال بعد ترکی کے ساتھ خام تیل کی برآمد کرنے والی مرکزی پائپ لائن کو دوبارہ کھولنے کا فیصلہ کیا۔ اس پائپ لائن کے ذریعے تیل کی ترسیل ترکی کے جیہان پورٹ تک کی جاتی ہے۔ یہ قدم اس بات کا غماز ہے کہ عراق میں اثر و رسوخ کا توازن ایران سے واشنگٹن کی جانب منتقل ہو رہا ہے۔
امریکہ کی جانب سے دباؤ کا آغاز
امریکہ پائپ لائن کی بحالی کا مطالبہ ایک طویل عرصے سے کر رہا تھا۔ اس کی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ تھی کہ اس پائپ لائن کے بند ہونے کے بعد تیل کی ترسیل جنوب کی طرف منتقل ہو گئی تھی، جس سے اسمگلنگ نیٹ ورکس کو فائدہ پہنچا اور ایران اور اس کے اتحادیوں کو مالی وسائل ملے۔ امریکی محکمہ خارجہ کے ذرائع کے مطابق، ڈرون حملوں کے بعد امریکی حکام نے عراقی توانائی کے شعبے کے منتظمین کو دھمکی دی کہ اگر پائپ لائن دوبارہ نہ کھولی گئی تو ان پر پابندیاں لگائی جائیں گی۔
ڈپلومیسی اور امریکی مفادات
ٹرمپ انتظامیہ کے ایک ذرائع نے کہا کہ امریکی حکام عراق میں اپنی سرمایہ کاری اور اپنے مفادات کی حفاظت کے لیے اس دباؤ کی مہم کا حصہ بنے رہے۔ عراق کے توانائی کے شعبے میں امریکی کمپنیوں کی مدد، تیل کی عالمی قیمتوں میں کمی لانے اور ایران کی حمایت یافتہ اسمگلنگ کے نیٹ ورک کو روکنا امریکہ کے اہم مقاصد میں شامل تھے۔
عراق میں امریکہ اور ایران کے درمیان اثر و رسوخ کا توازن
عراق طویل عرصے سے اپنے دو اہم اتحادیوں، ایران اور امریکہ، کے درمیان توازن قائم رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایران اپنے جوہری پروگرام کے سبب مغربی پابندیوں کا شکار ہے، اور عراق میں 10 سخت گیر شیعہ گروہوں کی حمایت کرتا ہے جن کے پاس تقریباً 50,000 جنگجو ہیں۔ تاہم، ایران اور اس کے اتحادیوں کی طاقت کو اس سال جون میں اسرائیلی حملوں کے نتیجے میں شدید نقصان پہنچا، جس نے عراق میں امریکی اثر و رسوخ کو مزید مستحکم کیا۔
پائپ لائن کی بحالی: عارضی یا مستقل؟
یہ فیصلہ کہ پائپ لائن کو دوبارہ کھولا جائے گا، عارضی معلوم ہوتا ہے کیونکہ عراق اور ترکی کے درمیان 1973 کا معاہدہ جولائی 2026 میں ختم ہو رہا ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان تیل کی درآمد اور برآمد کا ایک بنیادی معاہدہ ہے۔ اس معاہدے کی معیاد ختم ہونے کے بعد اس بات کا امکان ہے کہ عراق اور ترکی کے تعلقات میں پیچیدگیاں آئیں گی۔
عراقی حکومت نے اس معاہدے کو تسلیم نہیں کیا ہے جس کے تحت کردستان کی علاقائی حکومت نے امریکی تیل کمپنیوں کے ساتھ تیل کے معاہدے کیے ہیں۔ عراقی حکومت کا موقف ہے کہ تیل کے وسائل پر صرف وفاقی حکومت کا اختیار ہے، نہ کہ کردستان ریجن کا۔
نئے ایلچی اور امریکی توانائی سرمایہ کاری
اگرچہ عراق میں سیاسی اور اقتصادی پیچیدگیاں اب بھی موجود ہیں، لیکن امریکہ اور عراق کے تعلقات میں بہتری کی واضح علامتیں نظر آ رہی ہیں۔ 19 اکتوبر 2025 کو امریکہ نے عراق کے لیے نئے خصوصی ایلچی کا اعلان کیا، اور چند دن بعد ہی امریکی توانائی کمپنی ایکسن موبل نے جنوبی عراق میں اپنی پیداواری صلاحیت کو بڑھانے کا عہد کیا۔ ایکسن کے سی ای او ڈیرن ووڈز نے لندن میں ایک کانفرنس میں کہا، ”یہ ہمارے منصوبے کے لیے ایک بہت اہم پہلا قدم ہے، ہم طویل راستہ طے کرنے کے لیے پُر امید ہیں۔”
نتیجہ
عراق کی خام تیل برآمد کرنے والی پائپ لائن کی بحالی ایک اہم عالمی سیاسی اور اقتصادی پیشرفت ہے، جس سے امریکہ اور ایران کے درمیان اثر و رسوخ کا مقابلہ مزید شدت اختیار کرے گا۔ عراق کے لیے یہ فیصلہ ایک توازن کی کوشش کی غمازی ہے، لیکن یہ سوال باقی رہتا ہے کہ آیا اس معاہدے کا اثر مستقل ہو گا یا یہ صرف ایک عارضی حل ہے؟ اس پیشرفت کے اثرات مشرق وسطیٰ میں طویل المدت تعلقات اور عالمی توانائی منڈیوں پر نمایاں اثرات ڈال سکتے ہیں۔



