
یونان: فلسطینی پناہ گزینوں کی مشکلات اور امیدیں
ان میں سے کچھ افراد اپنے نئے وطن میں اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں
ایتھنز: یونان میں پناہ گزینوں کی صورتحال میں خاص طور پر فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے متعدد چیلنجز سامنے آ رہے ہیں، جنہیں حکومتی امداد کی کمی اور نفسیاتی مدد کی عدم فراہمی کا سامنا ہے۔ غزہ سے فروری 2024 میں یونان پہنچنے والے فلسطینی خاندانوں میں سے کچھ پناہ گزین اس وقت یونان میں رہائش پذیر ہیں، لیکن انہیں نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی طور پر بھی مشکلات کا سامنا ہے۔ ان میں سے کچھ افراد اپنے نئے وطن میں اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جبکہ دیگر اب بھی اپنے ماضی کے صدمے سے نمٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
غزہ میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں زخمی ہونے والی پندرہ سالہ راغد الفرح کی کہانی اس دردناک حقیقت کی عکاسی کرتی ہے۔ راغد، جنہیں اپنے جسمانی چوٹوں کے باعث بیساکھیوں کا سہارا لینا پڑتا ہے، اب ایتھنز میں پناہ گزین خواتین کے ایک شیلٹر ہاؤس میں رہائش پذیر ہیں۔ ان کی والدہ شادیہ الفرح نے اے ایف پی کو بتایا، ”جب ہمیں یونان نے پناہ دینے کی پیشکش کی تو ہمیں سکون ملا۔ ہمیں کبھی نہیں لگا تھا کہ ہم یورپ کی سرزمین پر قدم رکھ پائیں گے۔‘‘
راغد اور ان کے خاندان کا سفر انتہائی اذیت ناک تھا۔ غزہ کے شہر خان یونس میں اسرائیلی بمباری کے دوران راغد کی ٹانگ اور کمر کو شدید چوٹیں آئیں۔ اس کے بعد وہ کئی ماہ تک وینٹی لیٹر پر رہیں اور سات ماہ تک بستر سے نہیں اٹھ سکیں۔ راغد کی والدہ نے اپنے درد کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی بیٹی کا علاج کرنے میں یونانی حکومت نے غیر ضروری تاخیر کی۔ ”ہمیں کسی قسم کی مالی مدد فراہم نہیں کی گئی۔ یونان نے ہماری ذمہ داری تو لے لی، لیکن ہمیں تنہا چھوڑ دیا۔‘‘
یونان کی وزارتِ مہاجرت کے سیکرٹری جنرل ہیراکلس موسکوف کے مطابق، راغد سمیت غزہ سے آنے والے کئی بچے ہڈیوں اور جوڑوں کی پیچیدہ چوٹوں اور نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔ ان بچوں میں سے کچھ کو نفسیاتی مدد کی ضرورت ہے، مگر ابھی تک انہیں یہ مدد فراہم نہیں کی گئی۔ راغد کی والدہ نے مزید کہا کہ ان کے خاندان کو کوئی نفسیاتی معاونت فراہم نہیں کی گئی حالانکہ وہ اس صدمے سے گزر رہے ہیں۔
پناہ گزینوں کی جدوجہد:
ایتھنز میں مقیم ایک اور فلسطینی پناہ گزین سارہ السویرکی کی کہانی بھی پر عزم ہے۔ سارہ، جو ابھی بیس سال کی ہیں، نے اپنے مستقبل کے بارے میں امید کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا، ”میں اپنی عمر کی دوسری لڑکیوں کی طرح بننا چاہتی ہوں، گٹار اور پیانو سیکھنا چاہتی ہوں اور تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہوں۔‘‘ سارہ نے حال ہی میں ڈیئری امریکن کالج آف گریس میں داخلہ لیا ہے اور جنوری 2024 میں اپنی تعلیم کا آغاز کریں گی۔ سارہ نے نفسیات کو اپنی تعلیم کے لیے منتخب کیا ہے تاکہ وہ دوسروں کو ان کے صدمات سے نمٹنے میں مدد کر سکیں۔
تاہم، سارہ کا کہنا ہے کہ وہ ابھی تک اس بات کا یقین نہیں کر پائی ہیں کہ وہ ”ہمیشہ کے لیے‘‘ یونان میں رہیں گی یا نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غزہ کا مستقبل ابھی بھی غیر یقینی ہے اور انہوں نے تسلیم کیا کہ وہ اپنے وطن واپس جانے کی امید نہیں چھوڑ سکی ہیں، لیکن جنگ کی موجودہ صورتحال نے ان کے خوابوں کو دھچکا پہنچایا ہے۔
یونانی حکومت کا ردعمل:
یونانی حکومت نے فلسطینی پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے کی ذمہ داری تو قبول کی تھی، لیکن ان کی مدد میں واضح کمی محسوس کی جا رہی ہے۔ یونانی وزارتِ خارجہ کے مطابق فروری 2024 میں 26 فلسطینی پناہ گزین ایتھنز پہنچے، جن میں سے بیشتر غزہ میں اسرائیلی بمباری میں زخمی ہونے والے تھے۔ تاہم، یونانی حکام نے ان پناہ گزینوں کے لیے کوئی قابل ذکر مالی مدد یا نفسیاتی معاونت فراہم نہیں کی۔
ایک فلسطینی عہدیدار لطیف درویش کا کہنا ہے کہ ایتھنز میں فلسطینی کمیونٹی نے حکومت سے غزہ کے مزید زخمی شہریوں کی میزبانی کی درخواست کی ہے، لیکن موجودہ قدامت پسند حکومت میں اس کے لیے کوئی سیاسی ارادہ نظر نہیں آتا۔ درویش کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت فلسطینی عوام کے ساتھ اپنی تاریخی دوستی کو بھول چکی ہے۔
یونانی عوام کی حمایت:
یونان میں فلسطینیوں کے لیے عوامی حمایت خاصی مضبوط ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے اسرائیل پر حملے کے بعد فلسطینیوں کے ساتھ یونانی عوام کی یکجہتی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ وزیرِاعظم کریاکوس مٹسوٹاکس کی حکومت نے ابھی تک فلسطینی ریاست کو تسلیم نہیں کیا ہے، تاہم ایک حالیہ سروے کے مطابق 74 فیصد یونانی شہری فلسطینی ریاست کے قیام کی حمایت کرتے ہیں۔
غزہ کی موجودہ صورتحال:
غزہ کی صورتحال ابھی بھی انتہائی کشیدہ ہے۔ شادیہ الفرح، جو کہ غزہ میں اپنے دیگر تین بچوں کو چھوڑ کر یونان آئی ہیں، نے کہا، ”غزہ میں میرے بچے مجھ سے کہتے ہیں کہ وہ وہاں سے نکلنا چاہتے ہیں، لیکن میں خود کو بے بس محسوس کرتی ہوں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ”جنگ بندی معاہدہ کوئی حل نہیں ہے، کیونکہ اس کا مطلب تعمیرِ نو نہیں ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ جنگ دوبارہ شروع ہو جائے۔‘‘
یونان میں رہتے ہوئے راغد اور سارہ جیسے فلسطینی پناہ گزین اپنی زندگیوں کو دوبارہ سے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن انہیں اس سفر میں کٹھنائیاں درپیش ہیں۔ ان کا مستقبل اب بھی غزہ کی موجودہ صورتحال اور یونانی حکومت کی پناہ گزینوں کے لیے فراہم کردہ معاونت کی کمی پر منحصر ہے۔ ان کی کہانیاں نہ صرف فلسطینیوں کے لیے بلکہ دنیا بھر میں پناہ گزینوں کے حقوق کے لیے ایک اہم پیغام ہیں کہ عالمی برادری کو ان کی مدد کرنی چاہیے تاکہ وہ اپنے خوابوں کو دوبارہ حقیقت بنا سکیں۔



