پیر مشتاق رضویکالمز

مشرقی پاکستان سے بنگلہ دیش،۔سیاسی ناکامی کا نتیجہ……۔ پیر مشتاق رضوی

1971ء کی بنگلہ دیش کی صورت میں علیحدگی پسندی کی تحریک کے دوران، بھارت نے بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کی حمایت کی اور مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے خلاف جنگ لڑی

بنگال برصغیر پاک و ہند کا ایک اہم صوبہ تھا جس نے آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام اور تحریک پاکستان میں بنیادی کردار ادا کیا۔ 1906ء میں ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کی بنیاد رکھی گئی، جس کا مقصد بر صغیر کے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ اور ان کی بہتری کے لیے کام کرنا تھا۔ تحریک پاکستان میں بنگال کے کردار کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔قرار داد پاکستان 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں منظور کی جانے والی تاریخی قرارداد پاکستان شیر بنگال مولوی فضل الحق نے پیش کی تھی جو بنگال کے وزیر اعظم تھے۔ اس قرار داد میں مسلمانوں کے لیے جداگانہ مملکت کا مطالبہ کیا گیا تھا۔
بنگال کے مشہور سیاستدانوں جیسے کہ مولوی فضل الحق، حسین شہید سہروردی، اور خواجہ ناظم الدین اور بنگال کے مسلمانوں نے تحریک پاکستان میں اہم کردار ادا کیا۔
لیکن پاکستان کے قیام کے بعد بنگال کی اقتصادی اور سیاسی استحصال کی وجہ سے۔نگال کے مسلمانوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ 1952ء کے زبان کی تحریک نے بنگالیوں کی لسانی تعصب کی آگ کو شعلوں کی شکل دی، جس کے نتیجے میں بنگالیوں نے اپنی حقوق کی مطالبہ کرنا شروع کر دیا۔ پاکستان سے علیحدگی کے پس منظر میں اقتصادی، سیاسی، اور سماجی عدم توازن، زبان اور تشخص کے مسائل، اور مرکزی حکومت کی ناکامی شامل تھے۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو سیاسی، اقتصادی، اور سماجی استحصال کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ مشرقی پاکستان کے لوگوں کو پاکستان کی مرکزی حکومت میں اختیارات نہیں دیے گئے تھے اور انہیں اپنی زبان، کلچر، اور تشخص کے تحفظ کے لیے جدوجہد کرنی پڑی۔1970ء کے انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں اکثرتی حاصل کی، لیکن پاکستان کی مرکزی حکومت نے انہیں حکومت بنانے کی اجازت نہیں دی۔ اس سے مشرقی پاکستان میں غصہ اور احساس محرومی بڑھا اور آخر کار بنگلہ دیش کے قیام کا پیگ خیمہ بنی
بنگلہ دیش کا قیام پاکستانی حکمرانوں اور سیاستدنوں کی بڑی سیاسی ناکامی تھی، بلکہ یہ پاکستان کی مرکزی حکومت کی ناکامی تھی جو مشرقی پاکستان کے لوگوں کی مطالبات کو نظر انداز کرتی رہی۔ بنگلہ دیش کا قیام ایک نئی جمہوری اور آزاد ریاست کی بنیاد رکھی، جس نے اپنے لوگوں کو خودمختاری اور آزادی دی۔ بنگلہ دیش بنانے میں بھارت نے اہم کردار ادا کیا۔ 1971ء کی بنگلہ دیش کی صورت میں علیحدگی پسندی کی تحریک کے دوران، بھارت نے بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کی حمایت کی اور مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے خلاف جنگ لڑی۔بھارت نے بنگلہ دیش علیحدگی پسند رہنماؤں کو پناہ دی اور انہیں اپنی سرزمین پر قائم رہنے کی اجازت دی۔ بھارت نے بنگلہ دیش کے قیام کی تحریک کو مالی اور عسکری مدد بھی فراہم کی دسمبر 1971ء میں، بھارت نے مشرقی پاکستان میں پاکستانی فوج کے خلاف جنگ لڑی اور 16 دسمبر 1971ء کو ڈھاکہ میں پاکستانی فوج کی ہتھیار ڈالے جانے کے بعد بنگلہ دیش کے قیام کا اعلان کیا گیا۔جو کی ایک تاریخی سیاسی غلطی تھی
بھارت کی حمایت اور مداخلت کے بغیر، بنگلہ دیش کی آزادی شاید ممکن نہ ہوتی۔1971ءکے عام انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان میں اکثرتی حاصل کی، جس کا مطلب تھا کہ شیخ مجیب الرحمان کو پاکستان کا وزیر اعظم بننا تھا۔ لیکن مغربی پاکستان کے سیاستدانوں نے شیخ مجیب کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا، جس کے نتیجے میں سیاسی بحران پیدا ہوا۔کیونکہ مغربی پاکستان کے کچھ سیاستدانوں کے ذاتی مفادات تھے مغربی پاکستان کے ان سیاستدانوں نے شیخ مجیب کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کیا،تاکہ اپنی طاقت اور اختیارات کو برقرار رکھ سکیں جس کے نتیجے میں سیاسی بحران پیدا ہوا اور آخر کار بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کیا گیا۔ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ مجیب کا مینڈیٹ تسلیم کرنے سے انکار کیا کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ اگر عوامی لیگ کو حکومت بنانے کی اجازت دی گئی تو مشرقی پاکستان کا غلبہ ہو جائے گا اور مغربی پاکستان کے سیاستدانوں کے مفادات کو خطرہ ہو گا۔بھٹو کا خیال تھا کہ عوامی لیگ کی حکومت مشرقی پاکستان کی خودمختاری کا مطالبہ کرے گی اور پاکستان کی یکجہتی کو خطرہ ہو گا۔ انہوں نے یہ بھی خیال کیا کہ اگر عوامی لیگ کو حکومت بنانے کی اجازت دی گئی تو وہ مغربی پاکستان کے مفادات کو نظر انداز کرے گی اور مشرقی پاکستان کے مفادات کو ترجیح دے گی۔بھٹومرحوم نے یہ بھی کہا تھاکہ عوامی لیگ کی حکومت پاکستان کی اسلامی تشخص کو خطرہ ہو گی اور وہ پاکستان کو ایک سکولر ریاست بنانے کی کوشش کرے گی۔جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست میں اقتدار کی خواہش ایک اہم عنصر تھی، اس سلسلے "ادھر ہم اور ادھر تم "کا نعرہ اس کا ایک اہم حوالہ ہے۔”ادھر ہم اور ادھر تم "بھارت اور پاکستان کے درمیان 1971ء کی جنگ کے دوران بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی کے ایک بیان کا حوالہ بھی ہے، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ "ادھر ہم (بھارت) اور ادھر تم (پاکستان)”، جس کا مطلب تھا کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ ہو رہی ہے
ذوالفقار علی بھٹو نے اس بیان کو اپنے مفاد میں استعمال کیا اور پاکستان کے عوام کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اندرا گاندھی پاکستان کو تقسیم کرنا چاہتی ہے اور بھٹو ہی ہیں جو پاکستان کو بچا سکتے ہیں۔
بھٹو نے اس موقع کا بھر پور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی سیاسی پوزیشن کو مضبوط کیا اس طرح "ادھر ہم اور ادھر تم "کا نعرہ اور واقعہ بھٹو کی سیاسی حکمت عملی کا ایک اہم حصہ تھا، جس کے ذریعے انہوں نے اپنی اقتدار کی خواہش کو پورا کیا۔ان وجوہات کی بنا پر، بھٹو نے شیخ مجیب کا مینڈیٹ تسلیم کرنے سے انکار کیا اور عوامی لیگ کو حکومت بنانے کی اجازت نہیں دی، بنگال کے مسلمانوں نے تحریک پاکستان کا آغاز کیا اور قیام پاکستان کےلئے لازوال قربانیاں بھی دیں بنگال یعنی مشرقی پاکستان کے مسلمان بھائیوں کا ھم نے استحصال کیا اور دیوار سے لگا دیا جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان میں احتجاج اور بغاوت شروع ہو گئی اور آخر کار بنگلہ دیش بن گیا۔#

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button