
داعش میں بھرتی: ایک عالمی چیلنج
اس کا مقصد نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنا اور انہیں ایک "مقدس جنگ" کا حصہ بنانا ہوتا ہے
جواد احمد جرمنی-وائس آف جرمنی کے ساتھ
داعش (اسلامک اسٹیٹ آف عراق اینڈ شام) ایک ایسی دہشت گرد تنظیم ہے جس نے دنیا بھر میں اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں سے لاکھوں لوگوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے۔ اس تنظیم کا بنیادی مقصد ایک متنازع اسلامی ریاست کا قیام ہے، جس میں داعش نے اپنے ایجنڈے کو نافذ کرنے کے لیے ہر ممکن طریقے کا استعمال کیا ہے۔ ان طریقوں میں سب سے زیادہ تشویش کا سامنا نوجوانوں کی بھرتی سے ہے، جو نہ صرف ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہا ہے بلکہ عالمی امن کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن چکا ہے۔
داعش کی بھرتی کا عمل ایک پیچیدہ اور نفسیاتی حکمت عملی کے تحت ہوتا ہے، جس میں تنظیم اپنے متاثرہ افراد کو جذباتی، نظریاتی، اور نفسیاتی طور پر متاثر کرتی ہے۔ اس کا مقصد نوجوانوں کو اپنی صفوں میں شامل کرنا اور انہیں ایک "مقدس جنگ” کا حصہ بنانا ہوتا ہے۔ داعش نے اپنے پراپیگنڈے کے ذریعے دنیا بھر کے مختلف ممالک میں نوجوانوں کو اپنے جال میں پھانسنے کی کوشش کی ہے، جس کی وجہ سے یہ عالمی سطح پر ایک سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔
سوشل میڈیا: داعش کی بھرتی کا ہتھیار
داعش نے اپنے پروپیگنڈے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کیا ہے، خاص طور پر سوشل میڈیا کا۔ تنظیم نے انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام، اور ٹیلیگرام کا بھرپور استعمال کیا ہے تاکہ وہ نئے افراد کو اپنی صفوں میں شامل کر سکیں۔ ان پلیٹ فارمز پر داعش اپنے پیغامات، ویڈیوز، اور دیگر مواد کے ذریعے نوجوانوں کو بہکانے کی کوشش کرتی ہے۔
داعش نے اپنے پیغامات میں نوجوانوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ وہ دنیا بھر میں مسلمانوں کی مدد کر رہے ہیں اور ایک "نیا اسلامی خلافت” قائم کر رہے ہیں۔ تنظیم نے جنگ کو ایک مقدس مقصد کے طور پر پیش کیا ہے، جس میں نوجوانوں کو "شجاعت” اور "عظمت” کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ان ویڈیوز اور مواد میں جنگجوؤں کی قربانیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے تاکہ نوجوانوں میں جذباتی وابستگی پیدا کی جا سکے۔
جذباتی بحران اور نظریاتی تسلسل: نوجوانوں کو بہکانا
داعش میں بھرتی ہونے والے زیادہ تر افراد کم عمر نوجوان ہوتے ہیں، جو زندگی میں کسی نہ کسی قسم کی مشکلات کا سامنا کر رہے ہوتے ہیں، جیسے کہ ذاتی مشکلات، مایوسی، یا کمیونٹی سے علیحدگی کا احساس۔ یہ نوجوان اپنے مسائل کا حل داعش میں تلاش کرتے ہیں، جو انہیں ایک طاقتور اور معتبر شناخت فراہم کرنے کا وعدہ کرتی ہے۔ ان نوجوانوں کے لیے داعش کا پیغام ایک "متبادل” اور "مقدس” راستہ بن جاتا ہے، جس کے ذریعے وہ اپنی زندگی کے مقصد کو دوبارہ تلاش کر سکتے ہیں۔
داعش اپنے پراپیگنڈے کے ذریعے ان نوجوانوں کو یہ باور کراتی ہے کہ وہ ایک عظیم مقصد کا حصہ بن کر دنیا میں اپنی اہمیت محسوس کر سکتے ہیں۔ انہیں یقین دلایا جاتا ہے کہ جنگجو بن کر وہ اپنے خاندان اور مسلمانوں کی خدمت کر رہے ہیں۔ اس میں انہیں ایک جذباتی اور نظریاتی تسلسل فراہم کیا جاتا ہے، جو ان کے ذہن میں اس بات کا تصور پیدا کرتا ہے کہ یہ جنگ ایک "مقدس” فریضہ ہے، جس کا حصہ بن کر وہ دنیا میں اپنا مقام بنا سکتے ہیں۔
دہشت گردی کی بھرتی: عالمی سطح پر خطرہ
داعش کی طرف سے نوجوانوں کی بھرتی نہ صرف ان کی ذاتی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتی ہے بلکہ یہ عالمی سطح پر امن کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں اپنے پراپیگنڈے کے ذریعے نوجوانوں کو بہکاتی ہیں اور انہیں اپنی صفوں میں شامل کر کے مختلف ممالک میں دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کے لیے بھیجتی ہیں۔ ان کارروائیوں کا نتیجہ نہ صرف ان نوجوانوں کی زندگیوں کے تباہ ہونے کی صورت میں نکلتا ہے بلکہ یہ عالمی امن کے لیے بھی سنگین خطرہ بنتی ہیں۔
داعش اور اس جیسی دیگر تنظیموں کی طرف سے نوجوانوں کی بھرتی سیکیورٹی اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں اور سیکیورٹی ادارے اس مسئلے کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف اقدامات کر رہی ہیں، جن میں سوشل میڈیا پر نظر رکھنا، دہشت گردی کے خلاف سخت قوانین بنانا، اور نوجوانوں میں انتہاپسندی کے خلاف آگاہی پیدا کرنا شامل ہے۔ تاہم، ان اقدامات کے باوجود، داعش اور دیگر تنظیمیں نوجوانوں کو اپنی طرف مائل کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔
والدین اور خاندان کا کردار: ایک اہم ذمہ داری
داعش اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی بھرتی کے عمل میں خاندانوں کا کردار بہت اہم ہو سکتا ہے۔ والدین اور خاندان کے افراد کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ کھلی بات چیت کریں اور ان کی ذہنی حالت پر نظر رکھیں۔ اگر کسی نوجوان کو داعش یا کسی دہشت گرد تنظیم کے بارے میں سوچنے کا خدشہ ہو، تو خاندانوں کو فوراً ان کے ساتھ مشاورت کرنی چاہیے اور ان کی تشویشات کا جواب دینا چاہیے۔
خاندانوں کا کردار اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ والدین اپنے بچوں کی ذہنی حالت اور جذباتی بحران کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ انہیں اپنے بچوں کو یہ بتانا ہوگا کہ انتہاپسندی کا راستہ نہ صرف غیر قانونی ہے بلکہ یہ انسانیت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔ نوجوانوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ وہ اپنی زندگیوں کو بہتر طریقے سے گزار سکتے ہیں اور کسی دہشت گرد تنظیم کا حصہ بن کر صرف اپنے لیے نہیں بلکہ اپنے معاشرے اور دنیا کے لیے بھی مسائل پیدا کرتے ہیں۔
شریعت کے نام پر غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے یا خراج دینے پر مجبور کرنا
داعش کا ایک مرکزی دعویٰ یہ تھا کہ وہ شریعت کو نافذ کرنے کے لیے عمل کر رہی ہے، لیکن اس تنظیم نے اس دعوے کے باوجود شریعت کی بنیادی تعلیمات کی خلاف ورزی کی۔ داعش نے اپنے اقتدار کے دوران غیر مسلموں کو اسلام قبول کرنے یا خراج (جزیہ) دینے پر مجبور کرنے کی پالیسی اپنائی۔ اسلامی تاریخ میں خراج دینا ایک مخصوص شرعی عمل تھا جو اسلامی ریاست میں غیر مسلموں سے مخصوص مالیت کے بدلے میں امن کی ضمانت دیتا تھا۔ لیکن داعش نے اس عمل کو تشدد، دھمکیوں اور جبر کے ذریعے نافذ کیا، جو کہ شریعت کی روح کے خلاف تھا۔ اس طرح کی پالیسیوں نے داعش کو نہ صرف مقامی بلکہ عالمی سطح پر بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
تشدد اور قتل کی دھمکیاں: خلیفہ کی بیعت کے لیے جبر
داعش نے اپنے خلیفہ (ابو بکر بغدادی) کے لیے بیعت لینے کا عمل بھی تشدد اور جبر کے ذریعے کیا۔ داعش نے لوگوں کو خلیفہ کی بیعت کرنے پر مجبور کیا اور اس کے لیے تشدد، قتل اور دھمکیاں دینے جیسے ہتھکنڈے استعمال کیے۔ اس عمل نے اسلامی تاریخ میں موجود جمہوری اصولوں کی خلاف ورزی کی، جہاں خلیفہ کے انتخاب کا عمل عوام کی مشاورت اور رضامندی سے ہوتا تھا۔ داعش نے اس انتخابی عمل کو جبر، ڈرا دھمکا کر اور قتل و تشدد کی بنیاد پر تبدیل کیا، جو کہ اسلامی شریعت کے بنیادی اصولوں کے مخالف تھا۔
اسراف، فسق و فجور اور قتل کو فخر سمجھنا
داعش نے اپنی کارروائیوں میں اسراف اور فسق و فجور کو فروغ دیا۔ داعش کے جنگجو خود کو اسلامی "مجاہدین” کے طور پر پیش کرتے تھے، لیکن ان کی کارروائیاں اس بات کی غماز تھیں کہ وہ شریعت کی بنیادوں کو مکمل طور پر نظرانداز کر چکے تھے۔ داعش نے جنگی قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا، بے گناہ شہریوں کا قتل کیا اور پھر ان کارروائیوں کی ویڈیوز بنا کر انٹرنیٹ پر پھیلائیں، تاکہ اپنے آپ کو "نظریاتی” اور "مقدس” قرار دے سکیں۔ شریعتِ مطہرہ میں اس طرح کے قتل، تشدد، اور اسراف کو حرام قرار دیا گیا ہے، اور یہ داعش کی بے رحمانہ کارروائیوں کا سنگین حصہ تھا۔
تاریخی و ثقافتی تعلیمات پر قدغن لگانا
داعش نے اپنی حکمرانی کے دوران تاریخ اور قومی ادب کے تدریسی نصاب پر بھی پابندی عائد کی۔ اس تنظیم نے مختلف ثقافتوں، قوموں، یا مذاہب کے متعلق نصاب کو پڑھانے پر پابندی لگائی، تاکہ اس کے انتہاپسندانہ نظریات کے مطابق لوگوں کو تربیت دی جا سکے۔ داعش نے تعلیمی اداروں کو اپنے نظریات کا پروپیگنڈا کرنے کے لئے استعمال کیا اور ہر قسم کی آزاد فکر یا متبادل نظریات کو جاہلیت کے مترادف سمجھا۔
سیاہ جھنڈا اور سنت سے انحراف
داعش نے اپنے نشان کے طور پر سیاہ جھنڈے کا انتخاب کیا، حالانکہ اسلامی تاریخ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی خاص رنگ کے جھنڈے کی تعین نہیں کی تھی۔ یہ ایک اور مثال ہے کہ داعش نے شریعت کے اصولوں کو اپنی مرضی کے مطابق توڑا اور اپنی تشہیر کے لیے ایک "نظریاتی” علامت کے طور پر سیاہ جھنڈے کا استعمال کیا۔ اس عمل نے ان کے دعوے کو مشکوک بنایا کہ وہ شریعت کے نفاذ کے لئے کام کر رہے ہیں۔
نوجوانوں کو ریاستی اداروں میں داخلہ لینے سے روکنا
داعش نے اپنے نظریات کو پھیلانے کے لیے ایک اور سنگین قدم اٹھایا اور نوجوانوں کو ریاستی اداروں، جیسے فوج اور پولیس کی تربیت حاصل کرنے سے روکا۔ تنظیم نے یہ دعویٰ کیا کہ ان اداروں میں داخلہ حاصل کرنا اسلامی شریعت کے خلاف ہے، کیونکہ ان اداروں کا مقصد غیر اسلامی حکومتوں کی حمایت کرنا ہے۔ داعش نے اس بات پر زور دیا کہ مسلمانوں کو صرف اسی حکومت میں رہنا چاہیے جو اس کے نظریات پر عمل پیرا ہو، اور اس کے مخالفین کو "کافروں” کے طور پر دیکھا۔ اس طرح، داعش نے اپنی انتہاپسندی کو پھیلانے کے لیے تعلیمی اور ریاستی اداروں کے خلاف محاذ کھڑا کیا۔
قانونی تعلیمات کو شریعت سے متصادم قرار دینا
داعش نے لاء کالجز اور دیگر تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کو بھی ناجائز قرار دیا۔ اس کے مطابق، ان تعلیمی اداروں میں سکھائے جانے والے قوانین شریعت کے مخالف تھے کیونکہ وہ وضعی (غیر اسلامی) قوانین پر مبنی تھے۔ داعش کے نزدیک، صرف اس کی متعین کردہ شریعت ہی قانونی طور پر قابل قبول تھی، اور جو بھی ان کے نظریات کے مطابق نہیں تھا وہ غیر اسلامی اور گمراہ کن تھا۔ اس طرح، داعش نے نہ صرف ریاستی قوانین بلکہ تمام تعلیمی نظام کو اپنے منہج سے متصادم قرار دیا۔
خلاصہ: داعش کی بھرتی کا عمل اور اس کا مقابلہ کرنے کے طریقے
داعش کی طرف سے نوجوانوں کی بھرتی ایک پیچیدہ اور نفسیاتی عمل ہے جس میں سوشل میڈیا اور جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ تنظیم اپنے پروپیگنڈے کے ذریعے نوجوانوں کو بہکاتی ہے اور انہیں ایک "مقدس جنگ” کا حصہ بننے کی ترغیب دیتی ہے۔ اس بھرتی کے عمل کا اثر نہ صرف ان نوجوانوں کی زندگیوں پر پڑتا ہے بلکہ یہ عالمی امن کے لیے بھی ایک سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔
دنیا بھر میں حکومتیں، سیکیورٹی ادارے، اور خاندان اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ کس طرح داعش اور اس جیسی تنظیموں کی بھرتیوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ نوجوانوں کو انتہاپسندی کے اثرات کے بارے میں آگاہی دی جائے اور انہیں متبادل راستے فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اپنی زندگیوں کو بہتر، پرامن، اور مفید طریقے سے گزار سکیں۔
آخرکار، یہ ضروری ہے کہ دنیا بھر کے ممالک اور کمیونٹیز مل کر کام کریں تاکہ نوجوانوں کو دہشت گرد تنظیموں کے جال سے بچایا جا سکے اور عالمی امن کو محفوظ بنایا جا سکے۔







