مشرق وسطیٰتازہ ترین

لبنان: حزب اللہ کو دی گئی مہلت قریب، ملک نازک موڑ پر

اسرائیلی فوج کے عربی زبان کے ترجمان نے ہفتے کے روز کہا، ''آپ ان عمارتوں کے قریب موجود ہیں جنہیں حزب اللہ استعمال کرتی ہے، اور اپنی حفاظت کے لیے آپ کو فوراً وہاں سے انخلا کرنا ہو گا۔‘‘

کیتھرین شیئر

اسرائیل اور لبنان کے درمیان ہونے والی جنگ بندی کے تحت حزب اللہ کو 31 دسمبر تک غیر مسلح ہونا ہو گا۔ جیسے جیسے یہ تاریخ قریب آ رہی ہے، کشیدگی بڑھ رہی ہے اور خانہ جنگی یا اسرائیل کے مزید حملوں کے خدشات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

گزشتہ ہفتے کے اواخر میں اسرائیلی فوج نے ایک ایسا انتباہ جاری کیا جو جنوبی لبنان میں رہنے والے شہریوں کے لیے اب مانوس ہو چکا ہے۔اسرائیل نے کہا کہ وہ جلد ہی یانوح کے قصبے میں ان تنصیبات پر حملہ کرے گا، جن کے بارے میں اس کا دعویٰ ہے کہ وہ لبنان میں قائم عسکریت پسند گروہ حزب اللہ سے تعلق رکھتی ہیں۔اسرائیلی فوج کے عربی زبان کے ترجمان نے ہفتے کے روز کہا، ”آپ ان عمارتوں کے قریب موجود ہیں جنہیں حزب اللہ استعمال کرتی ہے، اور اپنی حفاظت کے لیے آپ کو فوراً وہاں سے انخلا کرنا ہو گا۔‘‘اس کے بعد ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا۔ لبنانی فوج نے درخواست کی کہ اسرائیلی فضائی حملے کے بجائے اسے خود ان مقامات کا معائنہ کر کے ہتھیاروں کی موجودگی کی جانچ کی اجازت دی جائے۔ جسے بعد میں اسرائیلی میڈیا نے ایک ‘نایاب‘ اور ‘بے مثال‘ واقعہ قرار دیا، اسرائیل نے اس درخواست سے اتفاق کیا اور یانوح پر فضائی حملہ منسوخ کر دیا۔

یہ لبنان کے لیے ایک مثبت لمحہ تھا، ایسے وقت میں جب صورتِ حال نہایت مشکل ہوتی جا رہی ہے، کیونکہ نومبر 2024 میں اسرائیل اور لبنان کے درمیان ہونے والی جنگ بندی کے ٹوٹنے کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔

حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی کے نافذ ہونے کے بعد جنوبی لبنان کے شہر صور میں ایک شخص اپنے گاؤں واپس جاتے ہوئے اپنی گاڑی پر سامان لادے ہاتھ ہلاتا ہوا نظر آ رہا ہے
جنگ بندی کے نافذ ہونے کے بعد اسرائیلی فوجیوں نے زیادہ تر علاقوں سے انخلا کر لیا اور لبنانی شہری اپنے گھروں کو واپس جانے کے قابل ہو گئے۔تصویر: Hussein Malla/AP Photo/picture alliance

جنگ بندی کیوں ضروری تھی؟

سات اکتوبر 2023 کو غزہ میں قائم عسکریت پسند گروہ حماس کے اسرائیل پر حملے کے تقریباً فوراً بعد، حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان ایک دوسرے پر فائرنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

حزب اللہ ایران نواز ملیشیاؤں کے اس اتحاد کا حصہ ہے جو طویل عرصے سے اسرائیل اور امریکہ کی مخالفت کرتا آ رہا ہے، اور یہ سرگرمیاں یمن، عراق، شام اور لبنان کے اندر سے جاری رہی ہیں۔ تاہم حزب اللہ محض ایک مسلح گروہ ہی نہیں، یہ لبنان میں ایک اہم سیاسی اور سماجی طاقت بھی ہے۔ اسے اکثر ”ریاست کے اندر ریاست‘‘ قرار دیا جاتا ہے، کیونکہ اس کے پاس سماجی بہبود کا اپنا نیٹ ورک اور ایک ایسی فوجی طاقت ہے جو سرکاری لبنانی اداروں کا مقابلہ کر سکتی ہے۔

اکتوبر 2023 سے نومبر 2024 کے درمیان اسرائیلی فوج نے زمینی اور فضائی حملوں کے ذریعے حزب اللہ اور لبنان کو نشانہ بنایا۔ نومبر میں فرانس اور امریکہ کی ثالثی سے جنگ بندی طے پائی، جس کی ایک شرط یہ تھی کہ لبنان 31 دسمبر تک حزب اللہ کو غیر مسلح کرے گا۔ اس کے بدلے میں اسرائیل لبنان پر حملے بند کرے گا اور اپنی فوج واپس بلائے گا۔

جیسے جیسے یہ آخری تاریخ قریب آ رہی ہے، لبنانی حکام پر دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ یہ ثابت کریں کہ وہ حزب اللہ کو غیر مسلح کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس ضمن میں خاصی پیش رفت کی ہے۔ لبنانی مسلح افواج (ایل اے ایف) کے مطابق انہوں نے اس قدر اسلحہ کے ذخائر تباہ کیے کہ ان کے پاس دھماکا خیز مواد ختم ہو گیا۔ تاہم، مبصرین باقاعدگی سے نشاندہی کرتے ہیں کہ اس دعوے کی تصدیق کرنا مشکل ہے۔ اس بات پر بھی اختلاف موجود ہے کہ آیا غیر مسلح کرنے کا عمل صرف جنوبی علاقوں میں، جو اسرائیلی سرحد کے قریب ہیں، ہونا ہے یا پورے ملک میں۔

مزید یہ کہ جنگ بندی کے باوجود اسرائیل نومبر کے بعد سے تقریباً روزانہ لبنان پر بمباری کرتا رہا ہے، جس کے نتیجے میں 120 سے زائد لبنانی شہری ہلاک ہو چکے ہیں، اور اسرائیل نے اب تک اپنی فوج مکمل طور پر واپس نہیں بلائی۔

جنوبی لبنان پر اسرائیل کا حملہ
اسرائیل کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے ساتھ منسلک ایک ضمنی خط اسے مبینہ خلاف ورزیوں پر ردِعمل کا اختیار دیتا ہے، بشرطیکہ وہ اس سے پہلے امریکا کو مطلع کرےتصویر: Ramiz Dallah/Anadolu Agency/IMAGO

ناقابلِ حل تعطل

تھنک ٹینک کرائسز گروپ کے لبنان سے متعلق سینئر تجزیہ کار ڈیوڈ وُڈ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ”دونوں فریق یہ الزام لگاتے ہیں کہ دوسرا جنگ بندی پر عمل نہیں کر رہا، اس لیے وہ خود بھی اس کی پابندی نہیں کریں گے۔‘‘ لہٰذا اصل سوال یہ ہے کہ پہلے کون پیچھے ہٹے گا۔

مثال کے طور پر، اسرائیل کا کہنا ہے کہ وہ اپنی تمام فوج لبنان سے اسی وقت نکالے گا جب حزب اللہ کو غیر مسلح کر دیا جائے گا۔ جبکہ حزب اللہ کا کہنا ہے کہ وہ یہ قدم اسی صورت میں اٹھائے گی جب اسرائیلی فوج نکل جائے اور اسرائیل لبنان پر بمباری بند کرے۔ حالانکہ، جیسا کہ وُڈ نشاندہی کرتے ہیں، اسرائیل کو واضح عسکری برتری حاصل ہے۔

لبنانی ریاست اس سارے معاملے میں بیچ میں پھنسی ہوئی ہے اور گزشتہ چند ہفتوں کے دوران اس پر اسرائیل اور امریکہ کی جانب سے دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔

لبنان گزشتہ تقریباً سات برسوں سے شدید معاشی بحران کا شکار ہے اور لبنانی فوج غیر ملکی امداد پر انحصار کرتی ہے۔ امریکہ نے کہا ہے کہ اگر لبنانی مسلح افواج (ایل اے ایف) نے حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا عمل تیز نہ کیا تو وہ ایل اے ایف کی مالی معاونت بند کر دے گا۔ لیکن اگر ایل اے ایف کی فنڈنگ بند ہو گئی تو ظاہر ہے کہ وہ یہ کام کرنے کے قابل ہی نہیں رہے گی۔

اسرائیل بھی لبنان پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ حال ہی میں وزیرِ دفاع اسرائیل کاٹز نے خبردار کیا ہے کہ اگر غیر مسلح کرنے کا عمل تیزی سے آگے نہ بڑھا تو اسرائیل لبنان میں اپنی فوجی کارروائیاں دوبارہ تیز کر دے گا۔

تاہم، اٹلانٹک کونسل کے مشرقِ وسطیٰ پروگرامز سے وابستہ سینئر فیلو نکولس بلینفورڈ کے مطابق، درحقیقت اسرائیلی بمباری اس عمل میں رکاوٹ ڈال رہی ہے۔

انہوں نے اکتوبر کی ایک بریفنگ میں لکھا، ”ستم ظریفی یہ ہے کہ، اسرائیل کی جارحانہ کارروائیاں، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کے عمل کو کمزور کر رہی ہیں۔ اگر اسرائیل لبنانی علاقوں سے نکل جائے اور اپنی فوجی کارروائیوں میں نمایاں کمی کرے تو حزب اللہ پر ہتھیار چھوڑنے کا کہیں زیادہ دباؤ پڑے گا۔‘‘

حزب اللہ کا دعویٰ ہے کہ لبنانی حکومت اسرائیل کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی، اور وہ یہ دلیل دیتی ہے کہ وہ ملک کا دفاع اس لیے کر رہی ہے کیونکہ اصل حکومت یہ کام کرنے سے قاصر ہے یا کرنا نہیں چاہتی۔

بلینفورڈ وضاحت کرتے ہیں، ”ان سب کا نتیجہ ایک ممکنہ جمود کی صورت میں نکلتا ہے۔ اگرچہ حزب اللہ ضد پر قائم رہے اور اپنے ہتھیار دینے سے انکار کر دے، تب بھی لبنانی حکومت نہ کر سکتی ہے، نہ کرے گی اور نہ ہی اسے کرنا چاہیے کہ وہ ایل اے ایف کو اس جماعت کے خلاف تعینات کرے، کیونکہ اس سے تقریباً یقینی طور پر فوج کا شیرازہ بکھر جائے گا اور ممکنہ طور پر خانہ جنگی بھڑک اٹھے گی۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ایل اے ایف حزب اللہ سے لڑنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو، تب بھی ملک کے نازک سیاسی توازن کو بگاڑنے کے خوف سے وہ ایسا نہیں کر سکتی۔

جنگ بندی کے فیصلے کے خلاف حزب اللہ کے حامیوں کا مارچ
حزب اللہ کے زیادہ تر حامی لبنانی شیعہ مسلمان ہیں جو ملک کے جنوبی حصوں میں رہتے ہیںتصویر: Fadel Itani/NurPhoto/IMAGO

ناقابلِ برداشت صورتِ حال

بیروت کی لبنانی امریکن یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر فادی نکولس نصار نے گزشتہ ماہ اطالوی ادارے انسٹی ٹیوٹ فار انٹرنیشنل پولیٹیکل اسٹڈیز کے لیے تحریر میں لکھا کہ نومبر کے اواخر میں بیروت پر ہونے والا اسرائیلی حملہ، جس میں حزب اللہ کے ایک کمانڈر کی ہلاکت ہوئی، اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ ”نومبر کی جنگ بندی کے بعد جو صورتِ حال (اسٹیٹس کو) قائم ہوئی تھی، وہ بکھر رہی ہے۔‘‘

واشنگٹن میں قائم مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے لیے اکتوبر میں کی گئی ایک تجزیاتی تحریر میں نصار نے تجویز دی کہ اعتماد سازی کے لیے بتدریج اقدامات کیے جائیں، جن میں ”واضح اور واضح سنگِ میل‘‘ شامل ہوں۔ مثال کے طور پر، ان کا کہنا ہے کہ اگر لبنانی ریاست ان علاقوں کے علاوہ بھی حزب اللہ کو غیر مسلح کرے جہاں یہ عمل پہلے ہی ہو چکا ہے، تو اس سے پیش رفت ممکن ہو سکتی ہے۔

اسی ہفتے لبنانی وزیرِ خارجہ یوسف راجی نے لبنان میں ایران کے منفی کردار پر تنقید کی، تاہم حزب اللہ کے سب سے بڑے بین الاقوامی سرپرست کی جانب سے تنظیم کے حوالے سے پالیسی میں جلد کسی تبدیلی کا امکان کم ہی ہے۔ حزب اللہ کا یہ بھی مؤقف ہے کہ لبنان جتنی زیادہ رعایت دے گا، اسرائیل اتنے ہی زیادہ مطالبات کرتا جائے گا۔

کرائسز گروپ کے تجزیہ کار ڈیوڈ وُڈ کا خیال ہے کہ ”سال کے اختتام کی آخری تاریخ قریب آنے کے ساتھ ساتھ کشیدگی مزید بڑھے گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، گزشتہ ایک سال سے اسرائیل کے طرزِ عمل کو دیکھتے ہوئے اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ اسرائیلی قیادت لبنان میں فوجی کارروائیاں اس وقت تک روک دے، جب تک وہ انہیں جاری رکھنے میں کسی قسم کا سکیورٹی فائدہ دیکھتی رہے گی۔‘‘

لیکن، وہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں، ”یہی وہ لمحہ ہوگا جب امریکا، جو جنگ بندی کا مرکزی ثالث ہے، مداخلت کر کے یہ کہہ سکتا ہے کہ ‘ہم اس بات پر توجہ کیوں نہ دیں کہ لبنانی فوج نے کیا کچھ حاصل کیا ہے، بجائے اس کے کہ وہ کیا حاصل نہیں کر سکی،‘ اور اسرائیل پر دباؤ ڈالے کہ وہ حد سے زیادہ ردِعمل نہ دکھائے اور تعمیری انداز میں کام کرے، بجائے اس کے کہ لبنانی ریاست پر عوامی اعتماد کو مزید مجروح کرتا رہے۔‘‘

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button