کالمزسید عاطف ندیم

معاشرتی اور ثقافتی بحرانوں کا سامنا: "ہے دست قبلہ نما لا الہ اللہ” کی اہمیت…..سید عاطف ندیم

ان تمام بحرانوں کے درمیان ایک ایسا پیغام ہمیں ہدایت دے سکتا ہے جو انسانیت کو اولیت دے اور ہمیں اپنی اقدار پر دوبارہ غور کرنے کی ترغیب دے

آج کے دور میں دنیا کئی معاشرتی، ثقافتی، اور اخلاقی بحرانوں کا شکار ہے۔ عالمی سطح پر مذہب، نسل، رنگ، اور ثقافت کی بنیاد پر ہونے والی تفریق اور نفرت نے انسانیت کو ایک نیا چیلنج دے دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ معاشرتی مسائل بڑھتے جا رہے ہیں، چاہے وہ جنگیں ہوں، قدرتی آفات، نسلی تفریق ہو، یا سوشل میڈیا پر پھیلنے والی نفرت۔ ان تمام بحرانوں کے درمیان ایک ایسا پیغام ہمیں ہدایت دے سکتا ہے جو انسانیت کو اولیت دے اور ہمیں اپنی اقدار پر دوبارہ غور کرنے کی ترغیب دے۔
"ہے دست قبلہ نما لا الہ اللہ” ایک ایسا مصرعہ ہے جو نہ صرف روحانی طور پر ہمیں حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے، بلکہ معاشرتی اور ثقافتی سطح پر بھی ایک گہرا پیغام فراہم کرتا ہے۔ یہ مصرعہ ہمیں انسانیت کے اصولوں کی یاد دلاتا ہے اور ایک ایسا معاشرہ بنانے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے جہاں ہم سب کے درمیان محبت، برابری، اور احترام ہو۔
"ہے دست قبلہ نما” ایک روایتی شعر ہے جو بیشتر مذہبی اور روحانی محافل میں سنایا جاتا ہے، اور اس کا مفہوم زیادہ تر ایک روحانی مقصد کی طرف رہنمائی کے طور پر سمجھا جاتا ہے۔ اس کا اصل پیغام "لا الہ اللہ” میں سمویا گیا ہے، جو عربی زبان کا مشہور لفظ ہے جس کا مطلب ہے "اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں”۔
یہ مصرعہ روحانی اور معاشرتی دونوں لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے۔ روحانی طور پر، یہ انسان کو اپنی حقیقت اور مقصد سے آگاہ کرتا ہے، اور معاشرتی سطح پر یہ ایک پیغام ہے کہ ہم سب کو انسانی تعلقات میں ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے اور اپنے اختلافات کو کم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
دنیا بھر میں آج مختلف قسم کے معاشرتی بحران بڑھتے جا رہے ہیں۔ نسلی تفریق، مذہبی شدت پسندی، جنگیں، معاشی عدم مساوات، اور ثقافتی بحران دنیا کے متعدد حصوں میں عام ہیں۔ جب ہم معاشرتی سطح پر ان مسائل کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ ہمیں اپنے اصولوں، اخلاقیات اور اقدار کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ ہم ان بحرانوں کا مقابلہ کر سکیں۔
"ہے دست قبلہ نما لا الہ اللہ” کا پیغام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہمیں اپنے اختلافات سے زیادہ انسانیت کو اہمیت دینی چاہیے۔ اس مصرعے میں "لا الہ اللہ” کے الفاظ انسان کے دل و دماغ میں ایک گہری تبدیلی لانے کی طاقت رکھتے ہیں، جو اسے ہر قسم کی تفریق سے بالا تر کر کے ایک جامع انسانی معاشرت کی طرف رہنمائی کرتے ہیں۔
دنیا میں جہاں مذہب، رنگ، اور نسل کی بنیاد پر تفریق ہو رہی ہے، وہاں "ہے دست قبلہ نما” کا پیغام ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ احترام، محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ اس مصرعہ کا مفہوم ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہم سب کا مقصد انسانیت کی خدمت ہے اور ہم سب کو ایک دوسرے کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آنا چاہیے۔
ثقافت وہ عنصر ہے جو ایک قوم یا جماعت کی شناخت کو ظاہر کرتا ہے۔ ثقافتی بحران تب پیدا ہوتا ہے جب مختلف ثقافتیں آپس میں ٹکراتی ہیں اور لوگوں کے درمیان تفریق پیدا ہوتی ہے۔ آج کی دنیا میں مختلف ثقافتوں کا موازنہ اور ٹکراو ہمیں اس بات کا قائل کرتا ہے کہ ہمیں اپنے اقدار اور ثقافتوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہیے، نہ کہ انہیں آپس میں متصادم کرنا چاہیے۔
"ہے دست قبلہ نما لا الہ اللہ” کا پیغام ہمیں یہ بتاتا ہے کہ ثقافتوں میں اختلافات کے باوجود انسانیت کی خدمت کا بنیادی اصول مشترک ہے۔ یہ مصرعہ ایک ایسا رشتہ قائم کرتا ہے جو مختلف ثقافتوں، مذاہب اور عقائد کے باوجود سب کو انسانیت کے ایک ہی دھاگے میں بندھتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ثقافت کا اپنا احترام ہے، مگر انسانیت کی اعلیٰ اقدار ہمیں ایک دوسرے کے قریب لے آتی ہیں۔
دنیا بھر میں مذہب کے نام پر ہونے والے تنازعات نے کئی قوموں اور اقوام کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کر دیا ہے۔ مذہبی شدت پسندی، شدت سے پھیلنے والا انتہاپسندیت، اور عقیدے کی بنیاد پر ہونے والی تفریق نے دنیا کے بیشتر حصوں میں اضطراب پیدا کر دیا ہے۔
"ہے دست قبلہ نما لا الہ اللہ” کا پیغام ہمیں بتاتا ہے کہ حقیقت میں ایک واحد خدا کی عبادت اور انسانیت کی خدمت سب سے زیادہ اہم ہے۔ اس مصرعہ میں "لا الہ اللہ” کا ذکر دراصل اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ تمام انسانوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا چاہیے، چاہے ان کے عقیدے کچھ بھی ہوں۔ ہمیں مذہبی اختلافات کو کم کرتے ہوئے انسانیت کے اصولوں پر زور دینا چاہیے تاکہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ زندگی گزار سکیں۔
روحانیت ایک ایسا پہلو ہے جو انسان کے اندر کی دنیا کو بہتر بناتا ہے۔ "ہے دست قبلہ نما” کا روحانی پیغام ہمیں اپنی زندگیوں میں سچائی، عدل اور اخلاقی معیاروں کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری روحانی اور اخلاقی ترقی کا راستہ انسانیت کی خدمت اور اپنے بھائیوں کے ساتھ برابری کی بنیاد پر ہے۔
"لا الہ اللہ” کا مفہوم ہمیں اس بات کی طرف متوجہ کرتا ہے کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی معبود نہیں، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم سب کو اپنے تعلقات میں عدل، محبت اور احترام کو فروغ دینا چاہیے۔ اس پیغام کے ذریعے، ہم اپنے اندر کی روحانیت کو بڑھا سکتے ہیں اور اپنے معاشرتی مسائل کو حل کرنے کے لیے ایک مضبوط بنیاد حاصل کر سکتے ہیں۔
آج کے دور میں، جہاں دنیا مختلف قسم کے بحرانوں کا سامنا کر رہی ہے، ہمیں معاشرتی ہم آہنگی کے لیے فعال طور پر کام کرنا ہوگا۔ "ہے دست قبلہ نما” کا پیغام ہمیں سکھاتا ہے کہ ہم سب کا مقصد انسانیت کی خدمت کرنا ہے، اور اس کا آغاز اپنے ارد گرد کے لوگوں کی عزت اور احترام سے ہوتا ہے۔
اگرچہ "ہے دست قبلہ نما” ایک روحانی اور فکری پیغام ہے، لیکن اس کے اثرات کو معاشرتی اور ثقافتی سطح پر لاگو کرنے کے لیے ہمیں صرف شعور ہی نہیں بلکہ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہم سب کو اپنی زندگیوں میں ان اقدار کو اپنانا ہوگا تاکہ ہم انسانیت کے لیے کچھ حقیقی مثبت تبدیلیاں لا سکیں۔
"ہے دست قبلہ نما لا الہ اللہ” صرف ایک مصرعہ نہیں، بلکہ ایک ایسا پیغام ہے جو ہمیں انسانیت کے اصولوں پر زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہم سب کا مقصد ایک دوسرے کا احترام کرنا، اپنی عبادت اور عقیدے کے باوجود انسانیت کی خدمت کرنا اور ایک ایسا معاشرہ قائم کرنا ہے جہاں محبت، عدل اور برابری ہو۔ اس پیغام کی حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے تمام مسائل کا حل انسانیت کی خدمت اور احترام میں ہے، اور یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں ایک پرامن اور ہم آہنگ دنیا کی طرف لے جائے گا۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button