
رپورٹ سید عاطف ندیم-پاکستان وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
پاکستان میں ایک بار پھر امریکی ڈالر کی قلت کی شکایات سامنے آ رہی ہیں، جس کے باعث اوپن مارکیٹ اور بینکوں میں ڈالر کی دستیابی محدود ہو گئی ہے جبکہ روپے پر دباؤ میں بھی اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ ماہرین اور مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ غیرقانونی کرنسی ایکسچینج کے خلاف حالیہ کریک ڈاؤن، درآمدی ادائیگیوں کا دباؤ اور بیرونی ترسیلاتِ زر کے طریقۂ کار میں تبدیلیاں اس صورتحال کی اہم وجوہات ہیں۔
کرنسی ڈیلرز کے مطابق ملک کے مختلف شہروں میں ڈالر کی طلب معمول کے مطابق ہے، تاہم سپلائی میں کمی کے باعث ریٹ میں اتار چڑھاؤ بڑھ گیا ہے۔ بعض مقامات پر اوپن مارکیٹ میں ڈالر سرکاری نرخ سے مہنگے داموں فروخت ہو رہا ہے، جبکہ کئی ایکسچینج کمپنیوں نے محدود مقدار میں ڈالر فراہم کرنے کی پالیسی اختیار کر لی ہے۔
غیرقانونی ایکسچینج کے خلاف کارروائیاں
حکومتی اداروں کی جانب سے غیرقانونی کرنسی ایکسچینج اور حوالہ و ہنڈی کے نیٹ ورکس کے خلاف سخت کارروائیاں جاری ہیں۔ حکام کا مؤقف ہے کہ ان اقدامات کا مقصد ڈالر کی اسمگلنگ روکنا، غیرقانونی لین دین کا خاتمہ اور زرمبادلہ کے سرکاری چینلز کو مضبوط بنانا ہے۔ تاہم مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کارروائیوں کے فوری اثرات ڈالر کی سپلائی پر پڑے ہیں، کیونکہ غیرقانونی چینلز بند ہونے سے وقتی طور پر مارکیٹ میں ڈالر کی روانی کم ہو گئی ہے۔
ایک کرنسی ایکسچینج ڈیلر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا،
“حکومتی کریک ڈاؤن درست سمت میں ہے، لیکن اس دوران قانونی ایکسچینج کمپنیوں کو مناسب سپلائی نہ ملنے سے صارفین کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔”
درآمدات اور بیرونی ادائیگیاں
معاشی ماہرین کے مطابق ڈالر کی طلب میں اضافے کی ایک بڑی وجہ درآمدی بلوں کی ادائیگی ہے۔ توانائی، ادویات اور صنعتی خام مال کی درآمدات کے لیے ڈالر کی ضرورت مسلسل برقرار ہے۔ اس کے علاوہ غیر ملکی قرضوں کی ادائیگیاں اور منافع کی منتقلی بھی زرمبادلہ پر دباؤ ڈال رہی ہیں۔
اسٹیٹ بینک کے ذرائع کا کہنا ہے کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بتدریج بہتری آ رہی ہے، تاہم مارکیٹ میں اعتماد کی بحالی کے لیے وقت درکار ہے۔ بینکنگ چینلز کے ذریعے ترسیلاتِ زر میں اضافہ مثبت اشارہ ہے، لیکن اس کا مکمل اثر مارکیٹ میں ڈالر کی دستیابی پر ابھی ظاہر نہیں ہوا۔
روپے پر اثرات
ڈالر کی قلت کے باعث پاکستانی روپے کی قدر پر بھی دباؤ دیکھا جا رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر سپلائی اور طلب کے درمیان فرق برقرار رہا تو روپے میں مزید اتار چڑھاؤ ممکن ہے۔ تاہم حکومتی حلقوں کا دعویٰ ہے کہ سخت مانیٹری پالیسی، درآمدات پر کنٹرول اور ترسیلاتِ زر کے فروغ سے صورتحال کو قابو میں رکھا جائے گا۔
حکومتی مؤقف اور آئندہ حکمتِ عملی
وزارتِ خزانہ کے ایک سینئر عہدیدار کے مطابق حکومت کرنسی مارکیٹ میں شفافیت لانے کے لیے اصلاحات پر کام کر رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ
“غیرقانونی کرنسی ایکسچینج کے خاتمے کے بعد قانونی چینلز کو مضبوط کیا جائے گا تاکہ ڈالر کی سپلائی میں استحکام آئے اور عوام کو کسی قسم کی پریشانی نہ ہو۔”
ماہرین کا کہنا ہے کہ قلیل مدت میں ڈالر کی قلت برقرار رہ سکتی ہے، تاہم اگر ترسیلاتِ زر میں اضافہ، برآمدات میں بہتری اور غیرقانونی چینلز کا مکمل خاتمہ ہو گیا تو درمیانی مدت میں صورتحال بہتر ہو سکتی ہے۔
فی الحال عوام اور کاروباری طبقہ ڈالر کی دستیابی اور نرخوں میں استحکام کے منتظر ہیں، جبکہ مارکیٹ کی نظریں حکومتی اقدامات اور اسٹیٹ بینک کی پالیسیوں پر جمی ہوئی ہیں۔



