
مصنف: میٹ فورڈ
انہوں نے ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے خطاب میں کہا،
"In der Dunkelheit erstrahlt ein Licht”
یعنی ”تاریکی میں ایک روشنی چمک رہی ہے۔‘‘
جرمنی کے سربراہِ مملکت اشٹائن مائر کے مطابق، بڑی اور چھوٹی بہت سی پریشانیاں دنیا کو تاریک بنا سکتی ہیں، جیسے بیماری، نقصان، تنہائی، روزگار کا عدم تحفظ، یا عالمی بحران اور جنگیں۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ روشنی ”کمیونٹی‘‘ میں بھی مل سکتی ہے۔ خاندان، دوست، گروہ، کلب اور وہ تمام تجربات، جو لوگوں کو خوش آمدید اور قبولیت کا احساس دلاتے ہیں، ان کے بقول خاص طور پر کرسمس کا موقع،’’ہماری زندگیوں کو زیادہ پُرامید، خوشگوار، گرمجوش اور پُرامید بناتا ہے۔‘‘

’ہمیں کمیونٹی کی ضرورت ہے‘
ایسے دور میں جب دنیا تیزی سے سوشل میڈیا اور انفرادیت کے زیرِ اثر آتی جا رہی ہے، اسٹائن مائر نے جرمن عوام کو یاد دلایا کہ ”ہمیں کمیونٹی کی ضرورت ہے‘‘ اور انہیں ایک دوسرے سے رابطہ قائم کرنے کی ترغیب دی۔
اشٹائن مائر نے کہا، میرا ماننا ہے کہ اگر ہم مقاصد اور رہنمائی کی تلاش میں دوسروں کے ساتھ مل جائیں تو ہم بہت کچھ حاصل کر سکتے ہیں، بشرطیکہ ہم دوسروں کو بولنے کا موقع دیں اور پوری توجہ سے ان کی بات سنیں، بجائے اس کے کہ ہم بار بار صرف وہی دہراتے رہیں جو ہم خود ہمیشہ درست سمجھتے آئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا، ”سچے سوالات پوچھنے، کھلے دل سے سوچنے، مکالمے میں شامل ہونے اور مشترکہ طور پر عمل کرنے کے ذریعے سمت کا احساس پیدا کرنا، ہمارے سامنے موجود راستے کو روشن کر سکتا ہے اور اسے ایک مقصد عطا کر سکتا ہے۔‘‘
اشٹائن مائر کے مطابق، کرسمس وہ وقت ہوتا ہے جب ملاقاتوں یا تہنیتی پیغامات کے ذریعے دوستیاں، شراکتیں اور خاندانی رشتے تازہ ہوتے ہیں، اور لوگوں کو یہ یاد دہانی کرائی جاتی ہے کہ زندگی کے سفر میں ”قابلِ اعتماد ساتھی کتنے ضروری ہوتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا، ”اور ہم جانتے ہیں کہ اچھے اور برے دونوں دنوں میں ہم دیرپا رشتوں پر بھروسا کر سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید کہا،”ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ دوسروں کے لیے موجود ہونا ہماری زندگیوں کو تکمیل اور معنی عطا کرتا ہے۔‘‘

یوکرین کے ساتھ یکجہتی
اشٹائن مائر کے خطاب میں ایک سیاسی پہلو بھی شامل تھا۔ جرمن صدر نے یوکرینی عوام کے ساتھ اپنی یکجہتی کا اظہار کیا، جن کی روسی جارحیت کے باعث مصائب کو اب تقریباً پانچ سال ہونے والے ہیں۔
انہوں نے کہا ”حالیہ دنوں میں جنگ کے خاتمے کے لیے راستے تلاش کرنے کی خاطر بھرپور کوششیں کی گئیں۔ ہم میں سے اکثر نے ان واقعات کو امید کے ساتھ، لیکن ساتھ ہی شکوک اور تشویش کے ساتھ بھی دیکھا ہو گا۔‘‘
انہوں نے کہا کہ، اس کے باوجود، انہیں یورپ کی جانب سےکمیونٹی کی ایک اور صورت میں امید ملی ہے۔ ان کے مطابق، یورپیوں پر لازم ہے کہ وہ ”ایک بار پھر مل کر اپنی طاقت اور اقدار کا ادراک کریں اور اسی کے مطابق عمل کریں۔‘‘
انہوں نے کہا، ”صدیوں کے دوران ہم نے یہ سیکھا ہے کہ آزادی، انسانی وقار، منصفانہ امن اور جمہوری خود ارادیت کتنی اہم، بلکہ ناگزیر ہیں۔ ہم ان اقدار سے دستبردار نہیں ہوں گے، نہ اپنے لیے اور نہ ہی اپنے دوستوں اور شراکت داروں کے لیے۔‘‘



