مشرق وسطیٰتازہ ترین

بیت اللحم میں دو سال بعد کرسمس کی رونقیں لوٹ آئیں

گزشتہ دو برسوں سے کرسمس تقریبات منسوخ کر رکھی تھیں۔ اس دوران مینجر اسکوائر میں ایک علامتی منظر پیش کیا گیا تھا

کشور مصطفیٰ اے پی، ڈی پی اے کے ساتھ

کرسمس ایو پر آج بدھ کو ہزاروں افراد بیت اللحم کے مینجر اسکوائر میں جمع ہوئے، جہاں مسیحی خاندانوں نے امید اور خوشی کی فضا میں جشن منایا۔ وہ بڑا کرسمس ٹری، جو اسرائیل-حماس جنگ کے دوران غائب تھا، بدھ کو دوبارہ نصب کیا گیا ۔

اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے کے بیت اللحم قصبے میں کرسمس کی تقریب میں مسیحی عقیدے کے مطابق تقریب کا انعقاد ہو رہا ہے
مسیحی عقیدے کے مطابق یسوع مسیح کی پیدائش بیت اللحم شہر میں ہوئی تھیتصویر: Hazem Bader/AFP

اس سال کی تقریبات کا آغاز ‘مقدس سرزمین‘ کہلانے والے اس شہر کے اعلیٰ کیتھولک رہنما، کارڈینل پیئرباتستا پیزابالا نے یروشلم سے بیت اللحم تک ایک روایتی جلوس کے دوران کیا۔ انہوں نے اپنے پیغام میں کہا، ”یہ کرسمس روشنی سے بھرپور ہو۔‘‘ مینجر اسکوائر پہنچ کر انہوں نے غزہ کی چھوٹی سی مسیحی برادری کی جانب سے نیک خواہشات پہنچائیں، جہاں انہوں نے اتوار کو کرسمس سے پہلے کی ایک اجتماعی عبادت کی قیادت بھی کی تھی۔ انہوں نے کہا، ”ہم سب مل کر روشنی بننے کا فیصلہ کرتے ہیں، اوربیت اللحم کی روشنی دنیا کی روشنی ہے۔‘‘ اس موقع پر روایتی کرسمس گیتوں کی دھنیں سنائی دیں۔

تاہم خوشی کے اس ماحول کے باوجود اسرائیلی قبضے والے مغربی کنارے میںجنگ کے اثرات شدید ہیں، خاص طور پر  بیت اللحم میں، جہاں مقامی حکومت کے مطابق تقریباً 80 فیصد آبادی سیاحت سے وابستہ کاروبار پر انحصار کرتی ہے۔ جشن منانے والوں کی اکثریت مقامی لوگوں پر مشتمل تھی، جبکہ چند غیر ملکی بھی موجود تھے۔ کچھ مقامی رہائشی باشندوں کا کہنا ہے کہ سیاحت کی واپسی کے آثار دکھائی دینے لگے ہیں۔

کیتھولک پادری کرسمس کے موقع پر مغربی کنارے کے شہر بیت لحم میں چرچ آف دی نیٹیٹی کے ساتھ ایک جلوس میں چل رہے ہیں
کیتھولک رہنما، کارڈینل پیئرباتستا پیزابالا نے یروشلم سے بیت اللحم تک ایک روایتی جلوس کی قیادت کیتصویر: Mahmoud Illean/AP Photo/dpa/picture alliance

سیاحت کی کمی نے بیت اللحم کو مفلوج کر دیا

بیت اللحم کی رہائشی اور ٹور گائیڈ جارجیٹ جاکامان، جنہوں نے گزشتہ دو سالوں میں اپنا کام انجام نہیں دیا ، نے کہا، ”آج خوشی کا دن ہے، امید کا دن، یہاں معمولات زندگی کی واپسی شروع ہو گئی ہیں۔‘‘ وہ اور ان کے شوہر مائیکل، جو خود بھی گائیڈ ہیں، بیت اللحم کے قدیم مسیحی خاندانوں سے تعلق رکھتےہیں۔ یہ ان دونوں کے ڈھائی سال اور دس ماہ کے دونوں بچوں کے لیے پہلی حقیقی کرسمس تقریب تھی۔

جنگ کے دوران جاکامان خاندان نے دوسروں کی مدد کے لیے فلسطینی دستکاری مصنوعات فروخت کرنے والی ایک ویب سائٹ شروع کی، تاکہ ان لوگوں کو سہارا دیا جا سکے جن کی روزی ختم ہو گئی تھی۔

بیت اللحم کے میئر ماہیر نکولا کناواتی کے مطابق  غزہ کی جنگ کے دوران شہر میں بے روزگاری کی شرح 14 فیصد سے بڑھ کر 65 فیصد تک پہنچ گئی۔

اسرائیل کے مقبوضہ مغربی کنارے میں بیت لحم میں کرسمس ٹری لائٹنگ کی تقریب کے دوران ایک شخص نیٹیویٹی اسکوائر میں کافی بیچ رہا ہے
کچھ مقامی رہائشی باشندوں کا کہنا ہے کہ سیاحت کی واپسی کے آثار دکھائی دینے لگے ہیںتصویر: John Wessels/AFP

جنگ کے سائے میں بیت اللحم میں امید کی کرن

فرانس سے آنے والی ایک مسیحی زائر مونا ریور نے کہا، ”میں یہاں آئی کیونکہ میں جاننا چاہتی تھی کہ فلسطین کے لوگ کس حال سے گزر رہے ہیں، اور آپ محسوس کر سکتے ہیں کہ یہ لوگ بہت مشکل وقت سے گزرے ہیں۔‘‘ اگرچہ اس خاتون کے دوستوں اور خاندان نے انہیں غیر مستحکم حالات کے باعث اس سفر سے روکا، تاہم ریور نے کہا کہ بیت اللحم میں موجودگی نے انہیں کرسمس کے اصل معنی سمجھنے میں مدد دی۔ ان کے بقول، ”کرسمس امید کی علامت ہے، تاریک حالات میں روشنی، ایک کمزور بچہ جو سختی کا سامنا کر رہا ہے۔‘‘

یاد رہے کہ  اکتوبر میں غزہ میں جنگ بندی کے آغاز کے باوجود مقبوضہ  مغربی کنارے کے بیشتر علاقوں میں کشیدگی ابھی تک برقرار ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button