
برطانیہ میں پاکستان مخالف سرگرمیوں پر تشویش، پی ٹی آئی سے منسوب اشتعال انگیز بیانیے نے بین الاقوامی قوانین پر سوالات اٹھا دیے
تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مبینہ طور پر اخلاقی، قانونی اور بین الاقوامی حدود کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان مخالف ایجنڈے کو فروغ دیا۔
رپورٹ سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ
برطانیہ کی سرزمین پر پاکستان مخالف سرگرمیوں اور اشتعال انگیز بیانیے سے متعلق ایک تشویشناک معاملہ سامنے آیا ہے، جس نے نہ صرف پاکستان اور برطانیہ کے دوطرفہ تعلقات کو متاثر کرنے کا خدشہ پیدا کر دیا ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین اور انسدادِ دہشت گردی سے متعلق عالمی ذمہ داریوں پر بھی سنجیدہ سوالات اٹھا دیے ہیں۔ حکومتی اور مصدقہ سفارتی ذرائع کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے مبینہ طور پر اخلاقی، قانونی اور بین الاقوامی حدود کو نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان مخالف ایجنڈے کو فروغ دیا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک طویل عرصے سے برطانیہ کی سرزمین کو پی ٹی آئی سے وابستہ بعض بھگوڑے یوٹیوبرز اور شرپسند عناصر کے ذریعے منظم انداز میں استعمال کیا جا رہا ہے، جہاں سے پاکستان اور اس کی مسلح افواج کے خلاف نفرت انگیز اور اشتعال انگیز مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ الزام ہے کہ یہ عناصر بیرونی آقاؤں کی ایما پر نہ صرف ریاستِ پاکستان کے خلاف منفی پروپیگنڈا کر رہے ہیں بلکہ دانستہ طور پر اشتعال انگیزی اور تصادم کو ہوا دینے کی کوششوں میں بھی مصروف ہیں۔
اس سلسلے میں 23 دسمبر 2025 کو پی ٹی آئی برطانیہ کے ایک آفیشل ایکس (سابقہ ٹوئٹر) اکاؤنٹ سے جاری کی گئی ایک ویڈیو نے شدید تنازع کو جنم دیا۔ ویڈیو میں برطانوی سرزمین پر موجود مظاہرین کو مبینہ طور پر کھلے عام ایک اعلیٰ عسکری عہدے دار کے خلاف سنگین نوعیت کی دھمکیاں دیتے ہوئے دکھایا گیا۔ ویڈیو کے ایک حصے میں ایک خاتون کی جانب سے انتہائی اشتعال انگیز اور پرتشدد زبان استعمال کیے جانے کا دعویٰ سامنے آیا ہے، جسے ماہرین اور مبصرین نے براہِ راست دہشت گردی پر اکسانے کے مترادف قرار دیا ہے۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نوعیت کے بیانات کو نہ تو آزادیِ اظہارِ رائے کے دائرے میں شامل کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی انہیں محض سیاسی اختلاف کا نام دیا جا سکتا ہے۔ ان کے مطابق کسی فرد، عسکری عہدے دار یا ریاستی ادارے کے خلاف تشدد، قتل یا دہشت گردی پر اکسانا بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے اور ایسے اقدامات کسی بھی جمہوری معاشرے میں ناقابلِ قبول سمجھے جاتے ہیں۔
مزید تشویشناک پہلو یہ ہے کہ پی ٹی آئی سے منسوب سوشل میڈیا ٹرول نیٹ ورکس نے اس مبینہ اشتعال انگیز اور دھمکی آمیز ویڈیو کو نہ صرف آگے پھیلایا بلکہ بعض آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس سے بھی اسے شیئر کیا گیا، جس سے اس عمل کو بالواسطہ جواز ملنے کا تاثر پیدا ہوا۔ مبصرین کے مطابق سوشل میڈیا پر اس قسم کے مواد کی تشہیر نہ صرف تشدد کے فروغ کا باعث بنتی ہے بلکہ انتہا پسندی اور نفرت انگیز رجحانات کو بھی تقویت دیتی ہے۔
بین الاقوامی قانون کے ماہرین اس امر کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1373 تمام رکن ممالک کو اس بات کا پابند بناتی ہے کہ وہ دہشت گردی، اشتعال انگیزی، مالی معاونت یا کسی بھی قسم کی حمایت کو روکنے کے لیے مؤثر اور عملی اقدامات کریں۔ اسی طرح برطانیہ کا انسدادِ دہشت گردی ایکٹ 2006 دہشت گردی کی حوصلہ افزائی، تشدد پر اکسانے اور نفرت انگیز تقاریر کو سنگین جرم قرار دیتا ہے، جس کے تحت ملوث افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جا سکتی ہے۔
مصدقہ ذرائع کے مطابق پاکستان نے اس واقعے پر برطانوی حکام کے سامنے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور واضح مؤقف اختیار کیا ہے کہ برطانوی سرزمین کو اس طرح کے پاکستان مخالف اور پرتشدد مقاصد کے لیے استعمال کرنا ناقابلِ قبول ہے۔ پاکستان نے برطانیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے میں ملوث افراد کی فوری شناخت کی جائے، شفاف اور غیر جانبدار تحقیقات کرائی جائیں اور قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق یہ واقعہ پی ٹی آئی کی مبینہ منافقانہ پالیسیوں کو بھی بے نقاب کرتا ہے، جہاں ایک طرف مذاکرات، مفاہمت اور جمہوری رویّوں کے دعوے کیے جاتے ہیں، جبکہ دوسری طرف ریاست مخالف اور پرتشدد بیانیے سے جڑے عناصر کو کھلی یا خاموش حمایت ملنے کے الزامات سامنے آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرزِ عمل سے نہ صرف اندرونی سیاسی کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ پاکستان کے عالمی تشخص اور سفارتی مفادات کو بھی نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔
مجموعی طور پر یہ واقعہ برطانیہ کے لیے ایک کڑا امتحان قرار دیا جا رہا ہے، جہاں یہ دیکھنا باقی ہے کہ وہ بین الاقوامی قوانین، انسدادِ دہشت گردی کی ذمہ داریوں اور ذمہ دار ریاستی طرزِ عمل کے تقاضوں کو کس حد تک پورا کرتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ایسے واقعات کی روک تھام کے لیے سخت قانونی کارروائی، شفاف تحقیقات اور مؤثر بین الاقوامی تعاون ناگزیر ہے، تاکہ کسی بھی ملک کی سرزمین کو تشدد، نفرت اور دہشت گردی کے فروغ کے لیے استعمال ہونے سے روکا جا سکے۔



