
بے نظیر کی شہادت اور آمریت کی موت ۔۔۔!!! پیر مشتاق رضوی
انہوں نے عوامی خدمت کے پروگراموں جیسے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو آگے بڑھایا انہوں نے مساوات اور انصاف کے اصولوں پر زور دیا اور پاکستان میں اجتماعی انصاف کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کام کیاب
محترمہ بینظیر بھٹو شہید کا سیاسی سفر بہت ہی پرجوش اور عوامی خدمت کے ساتھ ساتھ جمہوریت کے لیے وقف تھاوہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں اورعالم اسلام کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم بھی تھیں ۔ محترمہ بینظیر بھٹو شہید21 جون 1953ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں، اور انہوں نے اپنی اعلی’ تعلیم آکسفورڈ اور ہاورڈ یونیورسٹی سے حاصل کی۔ انہوں نے اپنے والد قائد عوام ذوالفقار علی بھٹوشہید کی زیر سرپرستی سیاست میں قدم رکھا اور 1988ء میں پاکستان کی وزیراعظم بنیں بے نظیر بھٹو نے اپنے سیاسی سفر میں کئی چیلنجز کا سامنا کیا، جن میں جلا وطنی، قید و بند، اور اپنے والد کی شہادت شامل ہیں۔ لیکن انہوں نے کبھی ہمت نہیں ہاری وہ جمہوریت کی بقاء اور عوامی خدمت کے لیے لڑتی رہیں۔وہ 1993ء میں دوسری بار وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئیں، لیکن 1996ء میں ان کی حکومت کو برطرف کر دیا گیا۔ 2007ء میں انہوں نے ایک بار پھر انتخابات میں حصہ لیا، لیکن 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں ایک انتخابی جلسے کے بعد انہیں شہید کر دیا گیا بے نظیر بھٹو شہید کی شخصیت اور سیاست کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے، اور وہ پاکستان کی تاریخ میں ایک اہم مقام رکھتی ہیں۔ بے نظیر بھٹو کو "دختر مشرق” کا لقب دیا گیا تھا۔ یہ لقب انہیں ان کی والدہ بیگم نصرت بھٹو نے دیا تھ جو کہ مشرقی دنیا میں ایک مضبوط جمہوری اور عوامی آواز ہونے کی وجہ سے دیا گیا تھا۔ انہوں نے اپنے والد کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی اور پاکستان کی سیاست میں ایک نئی تاریخ رقم کی محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنے والد پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹوشہید کے سیاسی فلسفہ اور منشور کو زندہ رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ اور جمہوریت کی خاطر اپنی جان بھی قربان کر دی انہوں نے اپنے والد کی سیاسی میراث کو آگے بڑھایا اور پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کا سیاسی فلسفہ "اسلامی سوشلزم” پر مبنی تھا، جس کا مقصد پاکستان کو ایک اسلامی،اور جمہوری ملک بنانا تھا۔ انہوں نے عوامی خدمت، مساوات، اور اجتماعی انصاف پر زور دی اورپیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو شہید کے سیاسی فلسفہ کو زندہ رکھنے کے لیے کئی اقدامات کیے، جمہوریت کی جدوجہد کو آگے بڑھایا اور پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے کام کیا۔ انہوں نے عوامی خدمت کے پروگراموں جیسے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو آگے بڑھایا انہوں نے مساوات اور انصاف کے اصولوں پر زور دیا اور پاکستان میں اجتماعی انصاف کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کام کیابے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ان کے شوہر آصف علی زرداری اوران کے خاندان نے ان کی سیاسی میراث کو آگے بڑھایا اورپیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے کے دوران ہوئی۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن تھیں اور 18 اکتوبر 2007ء کو جلاوطنی سے واپس آئیں تھیں۔ ان کی شہادت کے اسباب میں سے ایک یہ تھا کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور آمریت کے خلاف لڑ رہی تھیں ان پر پہلا حملہ 18 اکتوبر 2007ء کو کراچی کارساز میں ہوا، جس میں 170 افراد شہید ہوئے، لیکن وہ بچ گئیں۔ دوسرا حملہ 27 دسمبر 2007ء کو راولپنڈی میں ہوا، جس میں وہ شہید ہو گئیں۔ اس حملے میں 24 افراد شہید اور 91 زخمی ہوئے محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت نے پاکستان میں سیاسی بحران کو جنم دیا اور جمہوریت کی جدوجہد کو تقویت بخشی۔ ان کی شہادت کے بعد، ان کے خاندان اور پیپلز پارٹی نے ان کی سیاسی میراث کو آگے بڑھایا باپ اور بیٹی کا شہید ہونا ایک ایسا سانحہ ہے جس کی سیاسی اہمیت بہت گہری ہوتی ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی شہادت پاکستان کی تاریخ میں ایک انتہائی نازک موڑ تھا ۔ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت 4.اپریل 1979ء میں ہوئی، جب وہ پاکستان کے وزیراعظم تھے۔ انہیں ایک سیاسی مخالف کو قتل کرنے کے الزام میں پھانسی دی گئی۔ ان کے عدالتی قتل نے پاکستان میں ایک نئے سیاسی دور کا آغاز کیا، جس میں جمہوریت کی جدوجہد کو تقویت ملی محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت نے پاکستان میں ایک نئے سیاسی بحران کو جنم دیا، جس میں جمہوریت کی جدوجہد کو ایک نئی تقویت ملی پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک عظیم باپ اور اس کی عظیم بیٹی کی شہادت نے جمہوریت کی جدوجہد کو تقویت بخشی اور پاکستان میں سیاسی تبدیلی کی امید کو زندہ رکھا۔ان کی شہادت نے ان کی سیاسی میراث کو آگے بڑھایا اور ان کے خاندان کو سیاسی طور پر مضبوط کیا۔ ان کی شہادت نے عوامی ہمدردی کو جگایا اور ان کے خاندان کو عوامی حمایت حاصل ہوئی محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل کے پیچھے سیاسی عوامل کے بارے میں مختلف نظریات ہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ قتل دہشت گردوں نے کیا تھا، جبکہ دیگر لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ ایک سیاسی سازش تھی- محترمہ بے نظیر بھٹو کی جمہوریت کی بحالی اورسیاسی قوتوں کے درمیان مفاہمت کی کوششوں کی وجہ سے انہیں سیاسی مخالفین خصوصا” ملک پر مسلط آمریت کی طرف سے شدید مخالفت کا سامنا تھا دہشت گردوں کی طرف سے ان کی زندگی کو خطرات لاحق تھے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات کے لیے کئی کمیشن بنائے گئے، جن میں سے ایک اقوام متحدہ کا کمیشن تھا۔ اس کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بے نظیر بھٹو کا قتل ایک خودکش حملہ تھا جس میں انتہاپسندوں کا ہاتھ تھا تاہم یہ بات بھی قابل غور ہے کہ بے نظیر بھٹو کا قتل ایک پیچیدہ واقعہ تھا جس کے پیچھے متعدد عوامل تھے۔بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پاکستان میں سیاسی بحران پیدا ہو گیا۔ ان کے شوہر آصف علی زرداری نے پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت سنبھالی اور 2008ء کے عام انتخابات میں PPP نے کامیابی حاصل کی۔ آصف علی زرداری نے پاکستان کے صدر کے طور پر حلف اٹھایا اور یوسف رضا گیلانی کو وزیراعظم بنایا۔بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد، ان کے قتل کی تحقیقات کے لیے کئی کمیشن بنائے گئے۔ ان میں سے ایک اقوام متحدہ کا کمیشن تھا، جس نے 2010 میں اپنی رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بے نظیر بھٹو کا قتل ایک خودکش حملہ تھا جس میں انتہاپسندوں کا ہاتھ تھا۔محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد، پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اضافہ ہوا۔ حکومت نے دہشت گردوں کے خلاف کئی آپریشن کیے، جن میں سے ایک آپریشن ضرب عضب تھا۔ یہ حقیقت ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کو آمریت کی موت کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، کیونکہ وہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی جدوجہد کر رہی تھیں اور آمریت کے خلاف لڑ رہی تھیں۔ ان کی شہادت نے پاکستان میں سیاسی بحران کو ضرور جنم دیا لیکن جمہوریت کی جدوجہد کو تقویت بخشی محترمہ بینظیر بھٹو شہید کے شوہر آصف علی زرداری نے بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد "پاکستان کھپے” اور "جمہوریت بہترین انتقام ہے” کا نعرہ لگایا تھا۔ یہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ مسٹر زرداری نے شاید یہ نعرہ لگا کر اپنی پالیسیوں کو بچانے اور سیاسی طور پر اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کی کوشش کی ہو۔ جبکہ محترمہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد عوام میں شدید غم و غصہ تھا۔ زرداری نے شاید یہ نعرہ لگا کر عوامی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی ہو۔ مسٹرزرداری نے شاید یہ نعرہ لگا کر جمہوریت کی بحالی کی کوشش کی ہو اور بے نظیر بھٹو کی شہادت کو جمہوریت کی جدوجہد کے طور پر پیش کیا ہو۔ مسٹر زرداری کے اس نعرے کی مختلف لوگوں نے مختلف طریقوں سے تشریح کی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ نعرہ زرداری کی سیاسی حکمت عملی کا حصہ تھا جس کا مقصد ملک کو غیر یقینی کی صورتحال اور درپیش سیاسی بحران سے نکال کر سیاسی استحکام کی کوشش کرنا تھا کہ پاکستان کھپے کھپے کپھے!


