بین الاقوامیاہم خبریں

ڈونلڈ ٹرمپ کا صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے سے انکار، "آخر یہ ہے کیا؟”

اس بیان کے بعد دنیا بھر میں اس موضوع پر بحث شروع ہو گئی ہے، اور بین الاقوامی سطح پر اس موقف کو مختلف طریقوں سے پیش کیا جا رہا ہے۔

مدثر احمد-امریکہ، وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

نیویارک: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے صومالی لینڈ کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کرنے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس وقت اس تجویز کی حمایت نہیں کرتے۔ ایک حالیہ انٹرویو میں، جب صدر ٹرمپ سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی انتظامیہ صومالی لینڈ کو تسلیم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے، تو ان کا جواب واضح تھا: "نہیں۔” اس کے ساتھ ہی انہوں نے سوال کیا کہ "کیا واقعی کوئی جانتا بھی ہے کہ صومالی لینڈ کیا ہے؟”

اس بیان کے بعد دنیا بھر میں اس موضوع پر بحث شروع ہو گئی ہے، اور بین الاقوامی سطح پر اس موقف کو مختلف طریقوں سے پیش کیا جا رہا ہے۔

صومالی لینڈ: ایک علیحدہ خطہ، لیکن تسلیم نہ ہونے والا

صومالی لینڈ، جو 1991 سے اپنی خودمختاری کا دعویٰ کر رہا ہے، نے اس وقت سے لے کر اب تک عالمی سطح پر کسی بھی ملک سے باضابطہ تسلیم نہیں حاصل کیا ہے۔ یہ خطہ صومالیہ کے شمال مغربی حصے میں واقع ہے اور وہاں کی حکومت نے خانہ جنگی کے دوران اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ اس کے بعد سے صومالی لینڈ نے نسبتاً امن و استحکام کا تجربہ کیا ہے، جبکہ صومالیہ بدستور سیاسی عدم استحکام اور خانہ جنگی کا شکار رہا ہے۔

اگرچہ صومالی لینڈ نے اپنے علاقے میں خودمختار حکومت کی تشکیل کی ہے، لیکن عالمی برادری نے اس کی آزادی کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ صومالیہ کے حکام اس بات پر مسلسل زور دیتے ہیں کہ صومالی لینڈ کا علیحدہ ہونا ملکی سالمیت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے اور اسے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کرنے کے لیے کوئی جواز نہیں ہے۔

اسرائیل کا تاریخی فیصلہ

جمعے کو اسرائیل نے ایک بڑا قدم اٹھایا اور صومالی لینڈ کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کیا۔ اسرائیل اس بات کا پہلا ملک بن گیا جس نے صومالی لینڈ کو ایک آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا۔ اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا کہ اسرائیل فوری طور پر صومالی لینڈ کے ساتھ زراعت، صحت، ٹیکنالوجی اور معیشت کے شعبوں میں تعاون کے لیے تیار ہے۔ نیتن یاہو نے صومالی لینڈ کے صدر عبدالرحمن محمد عبدالله کو مبارک باد دی اور ان کی قیادت کی تعریف کرتے ہوئے انہیں اسرائیل کے دورے کی دعوت بھی دی۔

اسرائیل کا یہ اقدام خاص طور پر اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ ابراہیم معاہدوں کی روح کے مطابق ہے، جنہیں 2020 میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ کی ثالثی میں طے کیا گیا تھا۔ ان معاہدوں کے تحت اسرائیل نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ باضابطہ سفارتی تعلقات قائم کیے تھے، اور بعد میں دیگر ممالک بھی اس میں شامل ہوئے تھے۔

مصری اور سعودی ردعمل

اسرائیل کے اس فیصلے پر دنیا بھر میں ردعمل سامنے آنا شروع ہو گیا ہے۔ مصر نے اس اقدام کو "خطرناک پیش رفت” قرار دیا ہے۔ مصر کے وزیرِ خارجہ بدر عبدالعاطی نے اسرائیل کے اعلان کے بعد صومالیہ، ترکیہ اور جبوتی کے اپنے ہم منصبوں سے ٹیلی فونک رابطے کیے، اور اس معاملے پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا۔ مصری وزارتِ خارجہ کے مطابق وزرائے خارجہ نے اسرائیل کے فیصلے کی مذمت کی اور صومالیہ کی وحدت اور علاقائی سالمیت کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔

اسی طرح سعودی عرب نے بھی اسرائیل کے اس اقدام کو مسترد کیا ہے۔ سعودی عرب کے حکام نے کہا کہ وہ صومالیہ کی سالمیت کی حمایت کرتے ہیں اور کسی بھی علیحدہ علاقے کو تسلیم کرنے کو بین الاقوامی امن و سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

صومالی لینڈ کی امیدیں اور چیلنجز

اسرائیل کے اس اقدام کے بعد صومالی لینڈ کے حکام کو امید ہے کہ اس کے اثرات بین الاقوامی سطح پر مزید ممالک کو اس کی تسلیم کی طرف راغب کریں گے۔ صومالی لینڈ کے صدر عبدالرحمن محمد عبدالله نے اسرائیل کے فیصلے کو "علاقائی اور عالمی امن کی جانب ایک قدم” قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اب جب اسرائیل نے صومالی لینڈ کو تسلیم کر لیا ہے، دیگر ممالک بھی اس کی پیروی کریں گے، جس سے اس کی سفارتی حیثیت مضبوط ہوگی اور اسے عالمی منڈیوں تک رسائی حاصل ہو سکے گی۔

تاہم، یہ تسلیم کرنا کہ عالمی سطح پر صومالی لینڈ کو تسلیم کیا جائے گا، ایک بڑا چیلنج ہو سکتا ہے۔ صومالیہ کی حکومت اور اس کے اتحادی ممالک نے اس بات پر زور دیا ہے کہ کسی بھی علیحدہ علاقے کو تسلیم کرنا عالمی امن کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے اور اس سے خطے کی استحکام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

ٹرمپ کا موقف: "آخر یہ ہے کیا؟”

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک انٹرویو کے دوران صومالی لینڈ کے تسلیم کرنے کے بارے میں سوالات کے جواب میں کہا کہ وہ اس وقت اس تجویز کی حمایت نہیں کرتے۔ ان کا کہنا تھا کہ "کیا واقعی کوئی جانتا بھی ہے کہ صومالی لینڈ کیا ہے؟” ٹرمپ کے اس جواب نے اس معاملے پر ایک اور بحث کو جنم دیا، کیونکہ دنیا کے کئی ممالک، خصوصاً مشرق وسطیٰ کے ممالک، اسرائیل کے فیصلے کو چیلنج کر رہے ہیں اور صومالیہ کی علاقائی سالمیت کی حمایت کر رہے ہیں۔

آگے کا راستہ

صومالی لینڈ کے لیے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنی آزادی کے لیے عالمی سطح پر تسلیم کرنے کی جدوجہد جاری رکھے، جبکہ بین الاقوامی برادری میں اس کی حمایت میں مزید اضافہ کرے۔ اس کا مقصد عالمی فورمز میں اپنے موقف کو مستحکم کرنا ہے تاکہ اس کی سیاسی حیثیت میں اضافہ ہو سکے۔

دوسری طرف، اسرائیل کے فیصلے کے بعد صومالی لینڈ کو امید ہے کہ عالمی سطح پر دیگر ممالک بھی اس کے تسلیم کرنے کے لیے قدم اٹھائیں گے، لیکن یہ سلسلہ ایک پیچیدہ اور طویل سفر ہو سکتا ہے، جس میں عالمی سیاست اور سفارتکاری کے مختلف پہلوؤں کا خیال رکھنا ہوگا۔

اختتام:

صومالی لینڈ کی عالمی سطح پر تسلیم ہونے کا معاملہ اب ایک نیا موڑ لے چکا ہے، اور اس فیصلے کا اثر نہ صرف افریقی خطے بلکہ عالمی سیاست پر بھی پڑ سکتا ہے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے انکار کے باوجود اسرائیل کا یہ اقدام صومالی لینڈ کی بین الاقوامی حیثیت کو دوبارہ موضوع بحث بنا رہا ہے، اور اس کی سفارتی جدوجہد میں مزید پیچیدگیاں اور مواقع سامنے آ سکتے ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button