مشرق وسطیٰتازہ ترین

شامی فوج میں ’اسلامک اسٹیٹ ‘ کے حامی اب بھی موجود؟

امریکیوں کے قتل کے تقریباً ایک ہفتے بعد دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا آئی ایس نے اپنے ٹیلیگرام چینل پر ایک پیغام جاری کیا

کیتھرین شائر

دسمبر کے وسط میں شامی سکیورٹی فورسز کے ایک اہلکار نے، جو دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ کا حامی تھا، امریکی فوجیوں پر حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس واقعے کے دور رس نتائج سامنے آ سکتے ہیں۔

شامی محقق اور صحافی صبحی فرنجیہ نے لندن میں قائم میڈیا ادارے ‘المجلہ‘ کے لیے لکھا کہ یہ حملہ ”شامی حکومت کی انٹیلیجنس صلاحیتوں میں موجود جھول کو بے نقاب کرتا ہے، جو عملے اور وسائل کی کمی اور ملک کے جغرافیائی عدم استحکام کے باعث قابل فہم کمزوری ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ”پالمیرا حملے کو  اس دلیل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے کہ شامی حکومت میں خامی ہے اور وہ انسداد دہشت گردی جیسے اہم شعبوں میں قابل اعتماد نہیں۔‘‘

فرنجیہ نے نشاندہی کی کہ اگرچہ شام نے نومبر میں ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف امریکی قیادت میں قائم بین الاقوامی اتحاد میں شمولیت اختیار کر لی، لیکن اب تک یہ اتحاد صرف شامی وزارت داخلہ کے ساتھ تعاون کر رہا ہے اور وزارت دفاع کے ساتھ نہیں، جسے ابھی مکمل طور پر مستحکم اور محفوظ نہیں سمجھا جاتا۔

امریکیوں کے قتل کے تقریباً ایک ہفتے بعد دہشت گرد تنظیم ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا آئی ایس نے اپنے ٹیلیگرام چینل پر ایک پیغام جاری کیا، جس میں ان ہلاکتوں کو امریکہ اور اس کے مخالف شامیوں کے لیے ”ایک دھچکا‘‘ قرار دیا گیا۔ تاہم آئی ایس نے براہ راست اس کی ذمہ داری قبول نہیں کی اور ایسا لگتا ہے کہ یہ حملہ، بالکل اسی طرح جیسے حال ہی میں آسٹریلیا میں ایک یہودی اجتماع کو نشانہ بنانے والے دو افراد کا حملہ تھا، اس شدت پسند گروہ سے متاثر ہو کر کیا گیا۔‘‘

شامی سکیورٹی فورسز سابق حکومت کے فوجیوں کے خلاف لڑنے کے لیے لطاکیہ میں پیش قدمی کر رہی ہیں
ایک اندازے کے مطابق عراق اور شام میں اب بھی ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے  تقریباً 2,500  جنگجو موجود ہیںتصویر: Ali Hac Suleyman/Anadolu/picture alliance

کیا شامی فوج میں ایسے مزید اہلکار موجود ہیں جو ‘اسلامک اسٹیٹ‘  سے ہمدردی رکھتے ہیں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ شامی سکیورٹی فورسز میں ایسے افراد کی موجودگی کا امکان ہے جو یا تو اس شدت پسند گروہ سے متاثر ہیں یا اس کے نظریات سے ہمدردی رکھتے ہیں۔

ان کے مطابق ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ شامی حکومت نے دسمبر 2024 میں بشار الاسد کی آمریت کے خاتمے کے بعد تیزی سے نئی فوج تشکیل دینے کی کوشش کی۔ پالمیرا حملے کے فوراً بعد وزارت داخلہ کے ترجمان نے بتایا کہ اس علاقے میں، جہاں حملہ ہوا، فورسز میں 5,000 نئے اہلکار شامل کیے گئے۔ یاد رہے کہ ‘اسلامک اسٹیٹ‘ نامی تنظیم اپنے عروج کے دور میں شام اور عراق کے وسیع تر علاقوں پر قابض تھی، جن میں پالمیرا بھی شامل تھا۔

اسد حکومت کا خاتمہ، ایک سال بعد شام کہاں کھڑا ہے؟

ترجمان نے یہ بھی کہا کہ اہلکاروں کی ہفتہ وار جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور وہ شخص، جس نے امریکی فوجیوں اور ایک شامی افسر کو قتل کیا، پہلے ہی واچ لسٹ پر تھا اور حملے کے اگلے دن اسے برطرف کیا جانا تھا۔

بین الاقوامی کرائسس گروپ اور تھنک ٹینک سے منسلک ماہر جیروم ڈریون نے گزشتہ ہفتے اس امر کی وضاحت کی کہ نئی شامی حکومت کو دو راستوں میں سے ایک کا انتخاب کرنا پڑا۔ یا تو زیادہ لوگوں کو تیزی سے فوج میں بھرتی کرنا یا پھر سست لیکن سخت جانچ پڑتال سے کام لینا۔ حکام نے تیز رفتار بھرتی کو ترجیح دی۔  لیکن ڈریون کے مطابق، جیسا کہ انہوں نے برطانیہ کے اخبار ‘عرب ویکلی‘ کو بتایا، ”ان میں سے کچھ بھرتی شدہ افراد زیادہ شدت پسند ہو سکتے ہیں۔ وہ امریکی فوجیوں سے لڑنے کے لیے تیار ہو سکتے ہیں کیونکہ وہ حکومت کے مغربی ممالک سے تعلقات قائم کرنے کے فیصلے کے خلاف ہیں۔‘‘

کرد ملیشیا وائی پی جی کے شامی جنگجو
ماہرین کے مطابق HTS اب بھی ایسے انتہا پسندوں کو پناہ دیتی ہے جو ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے نظریات سے ہمدردی رکھتے ہیںتصویر: Baderkhan Ahmad/AP/dpa/picture alliance

مزید برآں، جیسا کہ پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ فرینکفرٹ کے ایک محقق مسعود الحکاری نے اس سال کے شروع میں لکھا تھا، ”ہیئت تحریر الشام (HTS)، جو پہلے  ‘اسلامک اسٹیٹ‘ اور القاعدہ سے منسلک تھی، بعد میں ان گروہوں سے الگ ہو گئی، حتیٰ کہ اس نے آئی ایس کے خلاف لڑائی بھی کی۔ تاہم ماہرین کے مطابق HTS اب بھی ایسے انتہا پسندوں کو پناہ دیتی ہے جو ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے نظریات سے ہمدردی رکھتے ہیں۔

‘اسلامک اسٹیٹ‘ شام کے صحرا میں مخفی

ایک اندازے کے مطابق عراق اور شام میں اب بھی ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے  تقریباً 2,500  جنگجو موجود ہیں، جو زیادہ تر چھپے ہوئے ہیں یا خفیہ سیلز میں سرگرم ہیں۔ سکیورٹی یقینی بنانا مشکل ہونے کی وجہ سے شام کا دور افتادہ صحرا ان کے لیے ہمیشہ ایک پسندیدہ پناہ گاہ رہا ہے۔

گزشتہ ہفتے کے آخر میں امریکہ نے شام میں 70 سے زائد فضائی حملے کیے، جن میں زیادہ تر پالمیرا کے شمالی دور دراز علاقوں کو نشانہ بنایا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان حملوں کو پالمیرا حملے کے جواب میں ”انتہائی سخت کارروائی‘‘  قرار دیا۔ رپورٹوں کے مطابق ان حملوں میں پانچ افراد ہلاک ہوئے۔

غزہ جنگ کے دو برس: ٹرمپ کے مطابق حماس ’دیرپا امن کے لیے تیار ہے‘

الحکاری وضاحت کرتے ہیں کہ شمالی شام میں کیمپوں میں قائم جیلوں میں ہزاروں سابق آئی ایس ارکان موجود ہیں، جو خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ لیکن ماہرین کے مطابق اس گروہ کو سب سے بڑا اور خطرناک بنانے والا عنصر ملک کا معاشی، سیاسی اور سکیورٹی ماحول ہے۔

Syrien IS-Zelle The Beatles
خیال کیا جاتا ہے کہ بیٹلز کے دہشت گرد سیل نے امریکی، برطانوی اور جاپانی صحافیوں اور امدادی کارکنوں سمیت یرغمالیوں کو پکڑا، تشدد کا نشانہ بنایا اور قتل کیاتصویر: Hussein Malla/AP Photo/picture alliance

14 سالہ خانہ جنگی کے بعد شامی آمریت کا خاتمہ ہوا، اور نئی شامی حکومت ابھی ملک میں مکمل سکیورٹی کنٹرول حاصل نہیں کر پائی۔ کچھ علاقوں میں نئی حکومت اور اقلیتی برادریوں کے درمیان جھڑپیں ہو رہی ہیں، جن سے سکیورٹی مسائل مزید بڑھ گئے ہیں۔ انتہائی مشکل معاشی حالات بھی عوامی بے چینی میں اضافہ کر رہے ہیں۔

الحکاری کے مشاہدے کے مطابق آئی ایس کے لیے دمشق حکومت کی کمزور  گورننس اور شامی عوام کی بے چینی دراصل ایک ایسی زرخیز زمین کی تیاری کا سبب  ہیں، جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ‘اسلامک اسٹیٹ‘ خود کو بہتر گورننس کے لیے متبادل  کے طور پر پیش کرتے ہوئے اور اپنے اثر و رسوخ کو بڑھاتے ہوئے شام میں اپنے قدم جما سکتی ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button