
یخ بستہ راتیں، بھیگے خیمے اور غزہ کے باسی
امدادی ادارے علاقے میں مزید پناہ گاہوں اور انسانی امداد کی فوری اجازت کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ زندہ بچ جانے والوں کو مناسب رہائش فراہم کی جاسکے۔
وسطی غزہ کے قصبے دیر البلح میں درجنوں فلسطینی خاندان اپنے بوسیدہ خیموں کو بارش اور سردی سے محفوظ رکھنے کی ایک اور ناکام کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ وہی خاندان ہیں جو تقریباً دو برس سے خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل اور حماس کی جاری جنگ نے غزہ کے بیشتر حصے کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔

خیموں میں بنے سوراخوں سے چھنتی روشنی اندھیرے میں ستاروں کے مانند جھلملاتی تو ہے تاہم یہ روشنی اب امید سے زیادہ بے بسی کی علامت بن چکی ہے۔ شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ سے بے گھر ہونے والے ایک شخص کے مطابق، ”ہم دو سال سے اسی خیمے میں رہ رہے ہیں۔ جب بارش ہوتی ہے تو پانی کے بوجھ سے خیمہ ہمارے سر تک جھک جاتا ہے۔ ہم لکڑی کے نئے ٹکڑے لگا کر اس کی مرمت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اب ہر چیز اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ گزر بسر مشکل ہو گیا ہے۔ نہ آمدنی ہے اور نہ ہی بچوں کے لیے مناسب بستر خریدنے کی سکت۔‘‘
غزہ میں حماس کے طبی ذرائع کے مطابق جنگ بندی کے نفاذ کے بعد بھی ہلاکتوں کا سلسلہ مکمل طور پر رُک نہیں سکا۔ جنگ بندی کے باعث ملبے تلے دبے افراد کی لاشیں نکالنے کا عمل نسبتاً آسان ہوا ہے مگر مجموعی طور پر انسانی جانوں کا نقصان بدستور بڑھتا جا رہا ہے۔ امدادی ادارے علاقے میں مزید پناہ گاہوں اور انسانی امداد کی فوری اجازت کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ زندہ بچ جانے والوں کو مناسب رہائش فراہم کی جاسکے۔
دیر البلح میں احمد وادی روزانہ گلیوں سے نائلون، گتے اور پلاسٹک جمع کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”اس سامان کو جلا کر میں تھوڑی بہت گرمائش پیدا کرتا ہوں یا انہیں کمبل کی طرح اپنے بچوں کو اوڑھا دیتا ہوں۔‘‘
احمد وادی کے بقول ”ہمارے پاس کوئی مضبوط ٹھکانہ نہیں ہے۔ سردی شدید ہے، بارشوں کا موسم ہے اور پانی ہر طرف سے خیمے میں داخل ہو جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم ہم کب تک یہ سب برداشت کر سکیں گے۔‘‘
دوسری جانب سیاسی محاذ پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے واشنگٹن دورے کے دوران جنگ بندی کے اگلے مرحلے پر بات چیت متوقع ہے۔ لیکن اس عمل کی رفتار سست پڑ چکی ہے۔
آئندہ مرحلے میں غزہ میں بین الاقوامی فورسز کی تعیناتی، غزہ کے لیے ٹیکنوکریٹک ایڈمنسٹریشن، حماس کو غیر مسلح کرنے کا عمل، اسرائیلی فوج کے انخلا جیسے پیچیدہ معاملات زیر غور ہیں۔

دوسری طرف اسرائیل اور حماس ماضی قریب میں ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کے الزامات بھی عائد کر چکے ہیں۔ اس سب کے بیچ مغربی کنارے میں بھی حالات کشیدہ ہیں۔
اسرائیلی فوجی کارروائیوں اور کرفیو کے باعث عام شہریوں کی نقل و حرکت محدود ہو گئی ہے۔ مقامی آبادی اسے ایک ‘‘اجتماعی سزا” تصور کرتی ہے۔ غزہ ہو یا مغربی کنارہ، ان علاقوں میں عام لوگ ہی جنگ کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ وہ سرد موسم، بھیگے خیموں اور سرد راتوں میں ٹھٹھرنے پر مجبور ہیں۔



