اہم خبریں

یخ بستہ راتیں، بھیگے خیمے اور غزہ کے باسی

امدادی ادارے علاقے میں مزید پناہ گاہوں اور انسانی امداد کی فوری اجازت کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ زندہ بچ جانے والوں کو مناسب رہائش فراہم کی جاسکے۔

ایجنسیاں

غزہ میں جنگ کی تباہ کاریوں کے سبب لاکھوں بے گھر افراد خیموں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ وہ اب سرد موسم اور بارش کی سختیوں سے بھی نبرد آزما ہیں، جو ان کی مشکلات میں مزید اضافہ کر رہی ہے۔

وسطی غزہ کے قصبے دیر البلح میں درجنوں فلسطینی خاندان اپنے بوسیدہ خیموں کو بارش اور سردی سے محفوظ رکھنے کی ایک اور ناکام کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ یہ وہی خاندان ہیں جو تقریباً دو برس سے خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اسرائیل اور حماس کی جاری جنگ نے غزہ کے بیشتر حصے کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے۔

غزہ، خیمہ بستی کی مکین خاتون اپنے خیمے کے پاس بارش کا پانی صاف کرتے ہوئے۔
غزہ، خیمہ بستی کی مکین خاتون اپنے خیمے کے پاس بارش کا پانی صاف کرتے ہوئے۔تصویر: Khames Alrefi/Anadolu Agency/IMAGO

خیموں میں بنے سوراخوں سے چھنتی روشنی اندھیرے میں ستاروں کے مانند جھلملاتی تو ہے تاہم یہ روشنی اب امید سے زیادہ بے بسی کی علامت بن چکی ہے۔ شمالی غزہ کے علاقے جبالیہ سے بے گھر ہونے والے ایک شخص کے مطابق، ”ہم دو سال سے اسی خیمے میں رہ رہے ہیں۔ جب بارش ہوتی ہے تو پانی کے بوجھ سے خیمہ ہمارے سر تک جھک جاتا ہے۔ ہم لکڑی کے نئے ٹکڑے لگا کر اس کی مرمت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اب ہر چیز اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ گزر بسر مشکل ہو گیا ہے۔ نہ آمدنی ہے اور نہ ہی بچوں کے لیے مناسب بستر خریدنے کی سکت۔‘‘

غزہ میں حماس کے طبی ذرائع کے مطابق جنگ بندی کے نفاذ کے بعد بھی ہلاکتوں کا سلسلہ مکمل طور پر رُک نہیں سکا۔ جنگ بندی کے باعث ملبے تلے دبے افراد کی لاشیں نکالنے کا عمل نسبتاً آسان ہوا ہے مگر مجموعی طور پر انسانی جانوں کا نقصان بدستور بڑھتا جا رہا ہے۔ امدادی ادارے علاقے میں مزید پناہ گاہوں اور انسانی امداد کی فوری اجازت کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ زندہ بچ جانے والوں کو مناسب رہائش فراہم کی جاسکے۔

غزہ میں مسلح تنازعے کے دو برس، کیا کچھ بدلا؟

دیر البلح میں احمد وادی روزانہ گلیوں سے نائلون، گتے اور پلاسٹک جمع کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”اس سامان کو جلا کر میں تھوڑی بہت گرمائش پیدا کرتا ہوں یا انہیں کمبل کی طرح اپنے بچوں کو اوڑھا دیتا ہوں۔‘‘

احمد وادی کے بقول ”ہمارے پاس کوئی مضبوط ٹھکانہ نہیں ہے۔ سردی شدید ہے، بارشوں کا موسم ہے اور پانی ہر طرف سے خیمے میں داخل ہو جاتا ہے۔ مجھے نہیں معلوم ہم کب تک یہ سب برداشت کر سکیں گے۔‘‘

دوسری جانب سیاسی محاذ پر اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے واشنگٹن دورے کے دوران جنگ بندی کے اگلے مرحلے پر بات چیت متوقع ہے۔ لیکن اس عمل کی رفتار سست پڑ چکی ہے۔

آئندہ مرحلے میں غزہ میں بین الاقوامی فورسز کی تعیناتی، غزہ کے لیے ٹیکنوکریٹک ایڈمنسٹریشن، حماس کو غیر مسلح کرنے کا عمل، اسرائیلی فوج کے انخلا جیسے پیچیدہ معاملات زیر غور ہیں۔

فلسطینی شہری پناہ گزین کیمپ کے قریب بارش کا پانی صاف کر رہا ہے۔
فلسطینی شہری پناہ گزین کیمپ کے قریب بارش کا پانی صاف کر رہا ہے۔تصویر: Omar Al-Qatta/AFP

دوسری طرف اسرائیل اور حماس ماضی قریب میں ایک دوسرے پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کے الزامات بھی عائد کر چکے ہیں۔ اس سب کے بیچ مغربی کنارے میں بھی حالات کشیدہ ہیں۔

اسرائیلی فوجی کارروائیوں اور کرفیو کے باعث عام شہریوں کی نقل و حرکت محدود ہو گئی ہے۔ مقامی آبادی اسے ایک ‘‘اجتماعی سزا” تصور کرتی ہے۔ غزہ ہو یا مغربی کنارہ، ان علاقوں میں عام لوگ ہی جنگ کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ وہ سرد موسم، بھیگے خیموں اور سرد راتوں میں ٹھٹھرنے پر مجبور ہیں۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button