
انصار ذاہد-سیال-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے سا تھ
سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کے خلاف فوجی عدالت کی جانب سے سنائی گئی سزا کے خلاف باضابطہ طور پر اپیل دائر کر دی گئی ہے۔ فیض حمید کے وکیل میاں علی اشفاق نے روزنامہ ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے اس امر کی تصدیق کی ہے کہ اپیل مقررہ مدت کے اندر جمع کرا دی گئی ہے، تاہم انہوں نے اپیل کی تفصیلات بتانے سے گریز کیا۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کو 11 دسمبر 2025 کو فیلڈ جنرل کورٹ مارشل نے چار سنگین الزامات میں قصوروار قرار دیتے ہوئے 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی تھی۔ ان الزامات میں رازداری کے قوانین کی خلاف ورزی، سیاسی سرگرمیوں میں غیر قانونی مداخلت، اختیارات کا ناجائز استعمال اور دوسروں کو نقصان پہنچانے جیسے الزامات شامل تھے۔
پاکستان آرمی ایکٹ کی دفعہ 133 بی کے تحت فیصلے اور سزا سنائے جانے کے بعد ملزم کو اپیل دائر کرنے کے لیے 40 دن کی مہلت حاصل ہوتی ہے، جس سے فیض حمید کے قانونی ٹیم نے فائدہ اٹھاتے ہوئے بروقت اپیل دائر کی۔
فوجی اپیل کا طریقہ کار
فوجی قوانین کے مطابق اپیل سب سے پہلے کورٹ آف اپیلز میں سنی جاتی ہے، جس کی سربراہی میجر جنرل یا اس سے اعلیٰ رینک کا افسر کرتا ہے۔ اس افسر کی نامزدگی آرمی چیف کی جانب سے کی جاتی ہے۔ کورٹ آف اپیلز کے فیصلے کے بعد آرمی چیف کو سزا کی توثیق، اس میں ترمیم یا مکمل طور پر منسوخ کرنے کا اختیار حاصل ہوتا ہے۔
ماضی کے مقدمات کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ فوجی عدالتوں میں اپیل کا عمل اکثر کئی برسوں پر محیط رہتا ہے، جس کے باعث کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے میں خاصا وقت لگ سکتا ہے۔
سزا کی تفصیلات
آئی ایس پی آر کی جانب سے 11 دسمبر کو جاری کردہ بیان میں بتایا گیا تھا کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل کی کارروائی 12 اگست 2024 کو پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت شروع کی گئی تھی، جو 15 ماہ سے زائد عرصے تک جاری رہی۔ طویل عدالتی کارروائی اور شواہد کا جائزہ لینے کے بعد فوجی عدالت نے انہیں تمام الزامات میں قصوروار قرار دے کر 14 سال قیدِ بامشقت کی سزا سنائی۔
آئی ایس پی آر کے مطابق سزا یافتہ افسر کی مبینہ طور پر سیاسی عناصر کے ساتھ مل کر سیاسی انتشار اور عدم استحکام پیدا کرنے میں شمولیت اور دیگر معاملات کو علیحدہ قانونی دائرے میں دیکھا جا رہا ہے۔ بیان میں انہیں ’’مسٹر فیض حمید، سابق لیفٹیننٹ جنرل‘‘ کے طور پر مخاطب کیا گیا، جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ ممکنہ طور پر ان کا فوجی رینک واپس لے لیا گیا ہے، تاہم اس حوالے سے آئی ایس پی آر کی جانب سے کوئی باضابطہ تصدیق یا وضاحت سامنے نہیں آئی۔
پس منظر اور کیس کی بنیاد
لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید نومبر 2022 میں ریٹائر ہوئے تھے۔ وہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے سابق ڈی جی آئی ایس آئی اور دوسرے تین ستارہ جنرل ہیں جنہیں مکمل فوجی ٹرائل کے بعد قید کی سزا سنائی گئی۔
یہ کیس پراپرٹی ڈویلپر کنور معز خان کے الزامات سے شروع ہوا، جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ 2017 میں اس وقت کے میجر جنرل فیض حمید اور دو دیگر فوجی افسران نے ان کے گھر اور دفاتر پر چھاپے مارے، قیمتی سامان ضبط کیا اور انہیں 4 کروڑ روپے کی ادائیگی اور ایک نجی ٹی وی چینل کی مالی معاونت پر مجبور کیا۔
یہ معاملہ 2023 میں دوبارہ اس وقت سامنے آیا جب سپریم کورٹ نے شکایت کنندہ کو وزارتِ دفاع کے ذریعے قانونی چارہ جوئی کا مشورہ دیا، جس کے بعد باضابطہ فوجی انکوائری کا آغاز کیا گیا۔
اگرچہ پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت عام طور پر ریٹائرمنٹ کے چھ ماہ کے اندر کارروائی کی اجازت ہوتی ہے، تاہم اس کیس میں دفعہ 2 ڈی کے تحت فوجی دائرہ اختیار کو بڑھایا گیا۔ اس کے علاوہ آرمی ایکٹ کی دفعات 31 اور 40 کے تحت بغاوت، نافرمانی اور جائیداد سے متعلق دھوکا دہی جیسے جرائم میں وقت کی قید کے بغیر کورٹ مارشل کی اجازت دی جاتی ہے۔
گرفتاری اور چارج شیٹ
اپریل 2024 میں کورٹ آف انکوائری نے باضابطہ کارروائی کی سفارش کی، جس کے بعد 12 اگست 2024 کو فیض حمید کو حراست میں لے لیا گیا۔ بعد ازاں انہیں تفصیلی چارج شیٹ فراہم کی گئی، جس میں ریٹائرمنٹ کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں مبینہ شمولیت، آفیشل سیکرٹس ایکٹ کی خلاف ورزی، 2017 کے چھاپے کے دوران اختیارات کے ناجائز استعمال اور کنور معز کے خلاف مبینہ جبر کے ذریعے مالی نقصان پہنچانے جیسے الزامات شامل تھے۔
تحقیقات کا دائرہ کار دیگر ریٹائرڈ افسران تک بھی بڑھایا گیا، جن میں بریگیڈیئر ریٹائرڈ غفار، بریگیڈیئر ریٹائرڈ نعیم فخر اور کرنل ریٹائرڈ آصف کے نام شامل ہیں، تاہم فوجی عدالت کے فیصلے میں ان افسران کے حوالے سے حتمی نتائج کی تفصیلات بیان نہیں کی گئیں۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی کے خلاف اس مقدمے اور اپیل کے عمل کو ملکی تاریخ کے حساس اور غیر معمولی قانونی معاملات میں شمار کیا جا رہا ہے، جس پر سیاسی، قانونی اور عوامی حلقوں کی گہری نظر ہے۔



