پاکستان پریس ریلیزاہم خبریں

سہیل آفریدی کا لاہور دورہ: پنجاب میں جمود کے شکار سیاسی منظرنامے میں تحریک انصاف کی نئی جان

وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کا لاہور کا دورہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب پی ٹی آئی کو سیاسی توانائی اور نئے بیانیے کی اشد ضرورت تھی

ناصف اعوان-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

لاہور — پنجاب میں ایک طویل عرصے سے جمود کا شکار پاکستان کے سیاسی منظرنامے پر وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کے حالیہ لاہور دورے نے واضح سیاسی ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔ مبصرین کے مطابق تین روزہ اس غیر معمولی اور بھرپور دورے نے نہ صرف پنجاب میں تحریک انصاف کو بطور سیاسی جماعت دوبارہ متحرک ہونے کا موقع فراہم کیا بلکہ پارٹی کی مجموعی سیاسی حکمت عملی میں ایک نمایاں تبدیلی کا عندیہ بھی دیا ہے۔

9 مئی کے واقعات کے بعد پنجاب میں تحریک انصاف عملی طور پر سیاسی طور پر غیر فعال دکھائی دے رہی تھی۔ نہ جلسے، نہ جلوس، نہ ہی نمایاں عوامی سرگرمیاں۔ پارٹی قیادت یا تو گرفتار تھی یا پس منظر میں چلی گئی تھی۔ ایسے میں وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی کا لاہور کا دورہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب پی ٹی آئی کو سیاسی توانائی اور نئے بیانیے کی اشد ضرورت تھی۔

بغیر جلسوں کے سیاست: ایک نئی حکمت عملی

سہیل آفریدی کے دورہ لاہور کی سب سے نمایاں بات یہ تھی کہ اس دوران کسی قسم کے احتجاج، جلسے یا جلوس کا اعلان نہیں کیا گیا اور نہ ہی آخری وقت سے قبل ان کی تین روزہ سرگرمیوں کا باقاعدہ شیڈیول جاری کیا گیا۔ مبصرین کے مطابق یہی وہ حکمت عملی تھی جس نے پنجاب انتظامیہ کو غیر مؤثر بنا دیا۔

ماضی قریب میں سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور کے لاہور دورے کے دوران جلسے کا اعلان کیا گیا تھا، جسے انتظامیہ نے ’’مینجمنٹ‘‘ کے ذریعے عملاً ناکام بنا دیا۔ جلسہ ختم ہو چکا تھا جب علی امین گنڈاپور وہاں پہنچے۔ اس تجربے کے برعکس سہیل آفریدی کا دورہ خاموش مگر مؤثر حکمت عملی کا مظہر تھا۔

پنجاب اسمبلی میں غیر معمولی پیش رفت

جمعے کی شام وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا سہیل آفریدی پنجاب اسمبلی پہنچے جہاں انہوں نے تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت کی۔ یہ پنجاب اسمبلی کی سیاسی تاریخ کا ایک منفرد واقعہ تھا کہ کسی دوسرے صوبے کے وزیراعلیٰ نے اسمبلی کے اندر ایک جماعت کے اجلاس میں شرکت کی۔

اگرچہ اسمبلی میں داخلے کے وقت سیکیورٹی معاملات پر کچھ دھکم پیل دیکھنے میں آئی، تاہم اس سرگرمی کو روکا نہیں جا سکا۔ یہ واقعہ تحریک انصاف کے لیے علامتی طور پر بھی اہم تھا کیونکہ اس نے پنجاب میں پارٹی کی پارلیمانی موجودگی کو ایک نئی شکل دی۔

عوامی مقامات، بندشیں اور کارکنوں سے ملاقاتیں

اس کے بعد آنے والے دو دن سیاسی طور پر زیادہ ہنگامہ خیز رہے۔ پنجاب حکومت نے سرکاری طور پر اعلان کے بعد وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو سیکیورٹی فراہم کی، تاہم ان کی سرگرمیوں کو مکمل طور پر روکنے میں ناکام رہی۔ لبرٹی چوک اور فوڈ اسٹریٹ جیسے اہم عوامی مقامات کو ان کی آمد سے قبل بند کر دیا گیا، مگر اس کے باوجود سہیل آفریدی سڑکوں اور چوک چوراہوں میں گاڑی سے باہر نکل کر کارکنوں سے ملتے رہے۔

بظاہر یہ پورا دورہ اس انداز میں ترتیب دیا گیا تھا کہ پنجاب انتظامیہ قانون کی عملداری کے نام پر اسے سبوتاژ نہ کر سکے۔ آئینی تحفظ اور وزیراعلیٰ کے عہدے کے باعث انتظامیہ کے ہاتھ بندھے ہوئے دکھائی دیے۔

صحافیوں سے ملاقاتیں: بیانیے کی جنگ

اس دورے کا ایک اور نمایاں پہلو تحریک انصاف کے اسیر رہنماؤں اور کارکنوں کے گھروں میں حاضری کے ساتھ ساتھ صحافیوں سے وسیع پیمانے پر ملاقاتیں تھیں۔ ان ملاقاتوں میں ایک عام رپورٹر سے لے کر سینئر تجزیہ کاروں تک کو مدعو کیا گیا، حتیٰ کہ ایسے صحافی بھی شریک ہوئے جو کھل کر تحریک انصاف کی سیاست پر تنقید کرتے رہے ہیں۔

اتوار کے روز ہونے والی یہ ملاقاتیں دن بھر جاری رہیں۔ متعدد صحافیوں نے سوالات سے قبل سہیل آفریدی کو اس بات پر سراہا کہ وہ براہ راست صحافیوں سے ملنے کے لیے دستیاب ہیں۔ معروف ٹی وی اینکر سید مزمل نے اس موقع پر کہا کہ پنجاب کی وزیراعلیٰ مریم نواز سے اس نوعیت کی ملاقاتیں ایک خواب کی مانند ہیں، جبکہ سہیل آفریدی کی دستیابی صحافیوں کے لیے خوشگوار حیرت ہے۔

سہیل آفریدی کا مؤقف: دباؤ کی نئی شکل

ان ملاقاتوں کے دوران وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے اپنی نئی حکمت عملی کھل کر بیان کی۔ ان کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف نے اب جلسے جلوسوں کے بجائے عوامی رابطہ مہم کا راستہ اختیار کیا ہے کیونکہ ماضی میں احتجاجی سیاست کے نتائج مثبت نہیں رہے۔ ان کے مطابق یہ عوامی رابطہ مہم اب رکے گی نہیں اور نہ ہی اسے آسانی سے روکا جا سکے گا۔

انہوں نے واضح کیا کہ یہ سلسلہ صرف لاہور تک محدود نہیں رہے گا بلکہ دیگر شہروں میں بھی اسی طرز پر عوامی روابط بڑھائے جائیں گے۔

تجزیہ کاروں کی رائے اور مستقبل کے سوالات

سینیئر تجزیہ کار سلمان غنی کے مطابق سہیل آفریدی نے خود تسلیم کیا کہ وہ فی الحال ملنے والی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں اور آگے کی حکمت عملی آنے والے فیصلوں سے مشروط ہے۔ ان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے مذاکرات کی حالیہ پیشکش بھی تحریک انصاف کی بدلتی حکمت عملی کے تناظر میں سامنے آئی ہے۔

تاہم سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف کی پوری سٹریٹ موومنٹ کی ذمہ داری صرف سہیل آفریدی کے کندھوں پر ہوگی؟ کیونکہ جو آئینی تحفظ اور پروٹوکول انہیں حاصل ہے، وہ کسی اور پارٹی رہنما کو میسر نہیں۔ مبصرین کے مطابق اگر وزیراعلیٰ خود اس مہم کی قیادت کرتے رہے تو پنجاب حکومت کے لیے اسے روکنا مشکل ہوگا، لیکن یہ حکمت عملی کب تک مؤثر رہے گی، اس کا فیصلہ آنے والے مہینوں میں ہوگا۔

حکومتی ردعمل: ایف آئی آر کا اندراج

دوسری جانب لاہور پولیس نے 50 سے زائد تحریک انصاف کے کارکنوں کے خلاف سڑک بند کرنے کے الزام میں ایف آئی آر درج کر لی ہے، جو اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ اگر پنجاب میں عوامی رابطہ مہم یا سٹریٹ موومنٹ مزید آگے بڑھی تو حکومت اس سے کس انداز میں نمٹنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

مجموعی طور پر سہیل آفریدی کا لاہور دورہ پنجاب کی سیاست میں ایک نئی بحث، نئی حکمت عملی اور ممکنہ طور پر ایک نئے سیاسی مرحلے کا آغاز ثابت ہو رہا ہے، جس کے اثرات آئندہ دنوں میں مزید واضح ہوں گے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button