
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان تجارتی، سرمایہ کاری اور فضائی روابط بڑھانے پر اعلیٰ سطحی بات چیت
اس تاریخی پس منظر کے باوجود، ماضی میں دونوں ممالک کے تعلقات مختلف ادوار میں نشیب و فراز کا شکار رہے۔
ڈھاکہ / پاکستان (ایجنسیاں):
پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان دوطرفہ تعلقات کو مزید وسعت دینے کے لیے تجارت، سرمایہ کاری، فضائی روابط، تعلیم اور ثقافتی شعبوں میں تعاون بڑھانے پر سنجیدہ پیش رفت جاری ہے۔ اسی سلسلے میں پاکستان کے ہائی کمشنر عمران حیدر نے اتوار کے روز بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس سے ملاقات کی، جس میں دونوں ممالک کے تعلقات کو ہمہ جہتی بنیادوں پر مضبوط بنانے پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔
اس ملاقات کے دوران پاکستانی ہائی کمشنر نے بنگلہ دیش کے ساتھ تجارتی تعلقات میں اضافے، سرمایہ کاری کے نئے مواقع، اور دونوں ممالک کے درمیان فضائی رابطوں کے فروغ پر زور دیا۔ فریقین نے اس بات پر اتفاق کیا کہ بدلتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان قریبی تعاون دونوں ممالک کے مفاد میں ہے۔
تاریخی پس منظر اور تعلقات میں نئی گرمجوشی
پاکستان اور بنگلہ دیش 1971 سے قبل ایک ہی ملک کا حصہ تھے۔ پاکستان کا قیام قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں اس سیاسی جدوجہد کا نتیجہ تھا جس کی بنیاد 1906 میں ڈھاکہ میں رکھی گئی تھی، جبکہ قیامِ پاکستان کی قرارداد بھی شیرِ بنگال اے کے فضل الحق نے پیش کی تھی۔ اس تاریخی پس منظر کے باوجود، ماضی میں دونوں ممالک کے تعلقات مختلف ادوار میں نشیب و فراز کا شکار رہے۔
خصوصاً سابق بنگلہ دیشی وزیراعظم حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں پاکستان اور بنگلہ دیش کے تعلقات زیادہ خوشگوار نہیں رہے۔ تاہم 5 اگست 2024 کو عوامی احتجاج کے نتیجے میں حسینہ واجد کی اقتدار سے علیحدگی کے بعد دونوں ممالک ایک بار پھر ایک دوسرے کے قریب آتے دکھائی دے رہے ہیں۔
ڈاکٹر محمد یونس کے دور میں تعلقات کی بحالی
ڈاکٹر محمد یونس کی قیادت میں بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان دفاعی، تجارتی، سرمایہ کاری اور فضائی شعبوں میں تعلقات کو فروغ دینے کے لیے عملی اقدامات کیے جا رہے ہیں۔ اتوار کے روز پاکستان کے ہائی کمشنر عمران حیدر کی ڈاکٹر محمد یونس سے ملاقات بھی اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی تھی۔
ملاقات کے بعد ڈاکٹر محمد یونس کے دفتر کی جانب سے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر ایک بیان بھی جاری کیا گیا، جس میں دوطرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے کی جانے والی بات چیت کا خیر مقدم کیا گیا۔
تجارت اور سرمایہ کاری میں پیش رفت
اعداد و شمار کے مطابق 2023 اور 2024 کے دوران پاکستان نے بنگلہ دیش کو 661 ملین ڈالر مالیت کی اشیاء برآمد کیں، جبکہ بنگلہ دیش کی جانب سے پاکستان کو 57 ملین ڈالر کی برآمدات کی گئیں۔ یہ اعداد و شمار پاکستان کی ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے اگست 2024 میں جاری کیے تھے۔
اسی سال دونوں ممالک کے وزرائے تجارت نے ایک مفاہمتی یادداشت (MoU) پر دستخط کیے، جس کے تحت مشترکہ تجارتی گروپ کے قیام پر اتفاق کیا گیا۔ اس گروپ کا مقصد دوطرفہ تجارت کے حجم کو ایک ارب ڈالر تک بڑھانا ہے۔
پاکستانی ہائی کمشن کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم میں گزشتہ سال کے مقابلے میں 20 فیصد اضافہ ہوا ہے، جو ایک نمایاں پیش رفت سمجھی جا رہی ہے۔ دونوں ملکوں کی بزنس کمیونٹیز اور سرمایہ کار ایک دوسرے کی منڈیوں میں مواقع تلاش کر رہے ہیں اور اس سلسلے میں دوطرفہ دوروں میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
عوامی روابط، تعلیم اور ثقافت
تجارتی تعلقات کے ساتھ ساتھ پاکستان اور بنگلہ دیش کے درمیان عوامی سطح پر روابط میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ایک غیر معمولی تبدیلی یہ بھی سامنے آئی ہے کہ حسینہ واجد اور ان کے والد کے ادوار میں پاکستان کے بارے میں رائج بیانیے سے بنگلہ دیش کی نئی نسل خود کو الگ ظاہر کر رہی ہے۔
بنگلہ دیشی طلبہ اب پاکستان کی جامعات میں تعلیم کے مواقع تلاش کر رہے ہیں، خاص طور پر میڈیکل، ٹیکنالوجی اور مصنوعی ذہانت (AI) کے شعبوں میں تعلیم حاصل کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
اس کے علاوہ ثقافتی اور ملی سطح پر بھی دونوں ممالک کے درمیان روابط بہتر ہو رہے ہیں۔ پاکستانی ہائی کمشنر عمران حیدر نے ڈھاکہ اور کراچی کے درمیان براہ راست پروازوں کے آغاز کے امکان کا بھی اظہار کیا، جسے دوطرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے ایک اہم قدم قرار دیا جا رہا ہے۔
بنگلہ دیش کا خیر مقدم
بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس نے پاکستان کی جانب سے کیے گئے ان اقدامات اور تجاویز کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہر شعبے میں دوطرفہ روابط کا فروغ خوش آئند ہے۔ انہوں نے تجارت، سرمایہ کاری، تعلیم اور ثقافت کے میدان میں پاکستان کے ہائی کمشنر عمران حیدر کی کوششوں کو سراہا اور توقع ظاہر کی کہ ان کی سفارتکاری کے دوران دونوں برادر ممالک کے درمیان تعاون کے مزید مواقع پیدا ہوں گے۔
خیال رہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں ہی جنوبی ایشیائی تنظیم سارک کے بانی رکن ممالک میں شامل ہیں، اور ماہرین کے مطابق باہمی تعاون میں اضافہ نہ صرف دونوں ممالک بلکہ پورے خطے کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔



