طیبہ بخاریکالمز

لندن فیصلے قابل قبول ہونگے۔۔۔۔؟طیبہ بخاری

مسلم لیگ (ن) کے کارکن یہ کہنے پر کیوں مجبور ہو گئے ہیں کہ ” میاں جی ہن واپس آ جاﺅ۔۔۔۔“

مسلم لیگ (ن) کے کارکن یہ کہنے پر کیوں مجبور ہو گئے ہیں کہ ” میاں جی ہن واپس آ جاﺅ۔۔۔۔“
کس کو جلدی ہے ۔۔۔؟اسلام آباد والوں کو ۔۔۔۔؟ راولپنڈی والوں کو ۔۔۔۔؟ یا لاہور والوں کو ۔۔۔۔؟
سب کی نظریں لندن پر کیوں ہیں۔۔۔؟کس کو اچھے فیصلوں کی امیدیں ہیں ۔۔۔؟
سوال یہ بھی ہے کہ لندن میں ہونیوالے فیصلے کون کون قبول کرے گا ۔۔۔؟
قبول کیے جائیں گے بھی یا نہیں۔۔۔؟
ملاقاتیں ہو رہی ہیں ، صحافیوں کو بھی شامل کیا جا رہا ہے لیکن تفصیلات کیوں چھپائی جا رہی ہیں، کس سے چھپائی جا رہی ہیں،کب تک چھپائی جائیں گی ۔۔۔؟
یہ بھی بڑا سوال ہے کہ کیا واقعی فیصلے لندن میں ہی ہو رہے ہیں ۔۔۔؟
سفارتی پاسپورٹ توجاری ہو چکا پھرپنڈورا باکس توکھلے گا۔۔۔؟
این آر ٹو ہوا یا تھری ۔۔۔؟ سب پر بات ہو گی اور کھل کر ہو گی ۔۔۔جواب دینا پڑے گا۔۔۔حساب بھی دینا پڑے گا ۔۔۔عوام کا سامنا کرنا پڑے گا ۔۔۔اوراس اپوزیشن کا بھی جو چور ،ڈاکو کے مو¿قف سے ابھی تک پیچھے نہیں ہٹی بلکہ آئندہ انتخابات بھی اسی بیانیے کیساتھ لڑنا چاہتی ہے۔۔۔۔
یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شہباز شریف نواز شریف کا دیا نام لا رہے ہیں۔۔۔
زرداری صاحب نے پتے سینے سے لگا رکھے ہیں۔۔۔
30 نومبر کو پاکستان کا آرمی چیف کون ہوگا؟ اس حوالے سے مکمل طور پر غیر یقینی صورت حال ہے۔۔۔۔
ابھی تک راولپنڈی سے اہل امیدواروں کے نام بھیجے جانے ہیں اس لیے اپنی سانسیں تھام لیجیے۔۔۔۔
لندن سے موصول ہونیوالی خبروں کے مطابق نواز شریف اور وزیراعظم شہباز شریف کے درمیان لندن میں ہونے والی ملاقات میں اہم فیصلے کیے گئے ہیں۔ملاقات میں اصولی فیصلہ کیا گیا کہ آرمی چیف کی تعیناتی پر بھی غور کیا جائے گا اور میرٹ کو اولیت دی جائے گی۔طے کیے گئے فیصلوں پر پی ڈی ایم کی قیادت کو بھی اعتماد میں لیا جائے گا۔وزیراعظم شہباز شریف نے نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ2گھنٹے سے زائد وقت گزارا۔دوسری جانب سابق وزیراعظم اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے صحافیوں کو وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کی تفصیل بتانے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ کسی دن آرام سے بیٹھ کر بتائیں گے۔لندن میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ دعا کریں اللہ تعالیٰ معاملات کو بہتر بنائے، ملک کو بھی بہتر راستے پر لے کر آئے، اس وقت ملک مشکل میں ہے۔
دوسری جانب (ن) لیگ کے قائد نواز شریف کو سفارتی پاسپورٹ جاری کردیا گیا ہے۔ شریف فیملی نے نواز شریف کو سفارتی پاسپورٹ ملنے کی تصدیق کردی ہے۔سفارتی پاسپورٹ ہونے کے سوال پر نوازشریف نے تصدیق کردی۔نواز شریف کا کہنا ہے کہ سفارتی پاسپورٹ میرے پاس کئی دن سے موجود ہے۔
ایک طرف سفارتی پاسپورٹ کی پیش رفت تودوسری جانب برطانوی عدالت میں وزیرِاعظم شہباز شریف سے متعلق ڈیلی میل مقدمے میں ”نئی پیش رفت“ سامنے آئی ہے کہ برطانوی عدالت نے شہباز شریف کی حکم امتناعی کی درخواست خارج کردی ہے۔ شہباز شریف کے وکلاءنے عدالت سے مزید وقت مانگا تھا، جس پر عدالت نے شہباز شریف کو مزید وقت دینے سے انکار کردیا۔شہباز شریف کے وکلاءنے عدالت سے درخواست کی تھی کہ وزیراعظم پاکستان ابھی مصروف ہیں، اس لیے جواب کے لیے مزید وقت دیا جائے۔ ڈیلی میل نے شہباز شریف کے خلاف ثبوت جمع کروانے کے لیے پانچویں بار وقت مانگ لیاجس پر جسٹس میتھیو نیکلن نے اپنے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ میری عدالت میں وزیراعظم اور عام آدمی برابر ہیں۔واضح رہے کہ شہباز شریف اور ان کے داماد علی عمران تاحال ڈیلی میل کے دفاع کا جواب نہیں دے سکے۔انہیں عدالتی نوٹس کا جواب نہ دینے کی صورت میں ڈیلی میل کی ”لیگل کاسٹ“ ادا کرنا ہوگی۔
”کاسٹ “ تو پاکستان میں بھی ادا کرنا پڑے گی معاشی فیصلوں کی ۔۔۔۔ ڈالر کی ا ٹھکھیلیاں جاری ہیں ،پرواز تھمنے کا نام نہیں لے رہی حکومتی دعوؤں کے باوجود معاشی چیلنجز بڑھ رہے ہیں۔بقول سینیٹر اور سابق وزیر خزانہ شوکت ترین کے” پی ڈی ایم حکومت کے” شدید حکیمانہ علاج“ کے باوجود سٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کے ذخائر بہتر نہیں ہو رہے ،سردیوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ ٹیرف میں 235 فیصد اضافے کے باوجود ہو رہی ہے۔ محصولات کی وصولی میں بڑی کمی اور نئے ٹیکسوں پر عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) اصرار کر رہا ہے۔ اب الیکشن کرانے اور موجودہ حکومت کے جانے کا وقت ہو رہا ہے“۔
یہاں ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ملکی زرمبادلہ ذخائر میں 95 کروڑ 79 لاکھ ڈالر کی کمی واقع ہوئی ہے ۔بیرونی قرضوں پر 95 کروڑ ڈالر کی ادائیگی کے باعث سٹیٹ بینک کے زرمبادلہ ذخائر 4 نومبر تک 7.95 کروڑ ڈالر رہے۔خود سٹیٹ بینک کے مطابق نومبر کے پہلے کاروباری ہفتے میں بیرونی قرضوں کے انتظام پر 95 کروڑ 60 لاکھ ڈالرز خرچ ہوئے۔4 نومبر تک ملکی زرمبادلہ ذخائر 95 کروڑ 79 لاکھ ڈالرز کم ہونے کے بعد 13 ارب 72 کروڑ ڈالرز رہے۔سٹیٹ بینک کے ذخائر 95 کروڑ 59 لاکھ ڈالر کم ہوکر 7 ارب 95 کروڑ ڈالر رہے جبکہ کمرشل بینکوں کے ذخائر 20 لاکھ ڈالر کم ہوکر 5 ارب 76 کروڑ ڈالرز رہے۔
دوسری جانب عالمی کساد بازاری کے اثرات بھی ورکرز ترسیلات پر نمایاں ہونے لگے ہیں، اکتوبر میں پاکستان آنے والی ورکرز ترسیلات 2 ارب 20 کروڑ ڈالرز رہیں۔ اکتوبر کی 2 ارب 20 کروڑ ڈالرز ورکرز ترسیلات ستمبر کے مقابلے میں 9 فیصد اور اکتوبر 2021 کے مقابلے میں تقریباً 15.7 فیصد کم ہیں۔رواں مالی سال کے ابتدائی4 مہینوں میں ورکرز ترسیلات 9.9 ارب ڈالر زپاکستان آئیں جو کہ گئے مالی سال کے ابتدائی 4 مہینوں سے رواں سال کی رقوم 8.6 فیصد کم ہیں۔ اکتوبر میں سعودی عرب سے 57 کروڑ ڈالر ورکرز ترسیلات پاکستان بھیجی گئیں۔متحدہ عرب امارات سے 42 کروڑ، برطانیہ سے 28 کروڑ اور امریکہ سے 25 کروڑ ڈالرز ورکرز ترسیلات بھیجی گئی ہیں۔
علاوہ ازیں عالمی بینک نے قدرتی آفات کوپاکستانی معیشت کے لیے بڑا خطرہ قرار دیدیا ہے ۔پاکستان سے متعلق کنٹری کلائمیٹ ڈیولپمنٹ رپورٹ میں عالمی بینک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیلاب سے 30 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا جبکہ 3 کروڑ 30 لاکھ افراد اس سے متاثر ہوئے۔ رپورٹ میں حالیہ سیلاب کو پالیسی سازوں کے لیے” ویک اپ کال“ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ترقی اور غربت میں کمی کی کوششوں کے لیے قدرتی آفات انتہائی نقصان دہ ہے۔ عالمی بینک نے شہروں میں سرمایہ کاری کے لیے میونسپل اور پراپرٹی ٹیکس لگانے پر زور دیا۔ 2050 ءتک پاکستان کی معاشی گروتھ کو 15 سے 20 فیصد تک نقصان کا تخمیہ لگایا گیا ہے۔ رپورٹ میں زراعت اور توانائی کے شعبے میں ٹارگٹڈ سبسڈی سمیت 5 اصلاحات کو ضروری قرار دیا گیا اور پاکستان میں ایگری فوڈ سسٹم، شہری سہولیات اور توانائی کے شعبے میں بہتری پر زور دیا گیا۔
پاکستان کی معیشت اسحاق ڈار کے آنے سے بہتر ہوئی یا نہیں اس کا جائزہ ان رپورٹس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے ، مہنگائی ، ڈالر کی قدر اور ٹیکسز میں اضافہ اور سیاسی بحران اسی طرح بڑھتے رہے تو آئندہ انتخابات میںپی ڈی ایم کا سیاسی مستقبل کیا ہو گا اس کے بارے میں کسی کو کچھ کہنے یا کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی ۔۔۔۔۔۔سب صاف صاف نظر آ رہا ہے ۔۔۔۔پی ڈی ایم دیکھے یا نہ دیکھے
رہی بات لندن فیصلوں کی تو کپتان نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ” دنیا میں جو کامیاب ملک ہیں ان کے ادارے مضبوط ہوتے ہیں، مضبوط اداروں کے اوپر مضبوط ملک ہوتا ہے،نواز شریف ہمیشہ اس آدمی کو اوپر لاتا ہے جو اس کے فائدے کا ہو۔ یہ آرمی چیف کی تعیناتی کا فیصلہ کرنے جا رہے ہیں، کسی بھی ترقی یافتہ ملک میں کوئی اس طرح کی چیز کا تصور نہیں کرسکتا، یہ وہی نواز شریف ہے جو جھوٹ بولتا ہے کہ معاہدہ نہیں کیا، معاہدہ سامنے آ گیا“۔انگریزی روزنامے” ڈان“ کو انٹرویو میں انہوں نے کہا ”جے آئی ٹی میں 2بریگیڈیئر نہ ہوتے تو نواز شریف کو سزا نہ ہوتی، آرمی چیف کی تقرری نواز شریف اور زرداری کا مسئلہ ہوگا، میرا نہیں، میں نے کبھی نہیں سوچا کہ نیا آرمی چیف کون ہوگا، یہ فیصلہ میرٹ پر ہونا چاہیے۔ اگلی بار سادہ اکثریت نہیں ملی تو حکومت نہیں لیں گے، سیاست سے آرمی کا کردار مکمل ختم کرنا غیر حقیقی ہوگا۔ وہ اتنا عرصہ حکومت میں رہے ہیں، اس لیے توازن ہونا چاہیے، مثبت کردار سے ملک میں اداروں کی ناکامی سے بچا سکتا ہے۔ نواز شریف کو بلانے کی کوشش ہو رہی ہے تاکہ ایک جیسا ماحول دینے کا تاثر دیا جا سکے، جو ڈگی میں چھپ کر ملتا ہے اس سے کیا مذاکرات ہوں گے۔ میں فوج کے ساتھ کھڑا ہوں، فوج میری ہے، میں لانگ مارچ کو لے کر چل رہا ہوں، مجھے جلدی نہیں اسلام آباد والوں کو جلدی ہے، نواز شریف کو ایمپائر کی ضرورت ہے مجھے نہیں، نواز شریف ہمیشہ اپنے ایمپائر کے ساتھ کھیلتا ہے“۔
لانگ مارچ سے خطابات میں پی ٹی آئی رہنما بار بار یہ الفاظ دہرا رہے ہیں کہ لندن کے فیصلے عوام کو قبول نہیں ہیں، حقیقی آزادی کا مطلب پاکستان کے فیصلے پاکستان سے باہر نہیں ہو سکتے۔ قانون سب کےلئے برابر ہوتا ہے، پاکستان کے فیصلے نہ امریکا میں ہوں گے نہ لندن میں ہوں گے، اس ملک کی حقیقی آزادی کےلئے فیصلے عوام کو کرنے ہیں۔ جو بھگوڑا ہے، اس کےلئے ڈپلومیٹک پاسپورٹ آ جائے، ایک مفرور کو 5 سال کا پاسپورٹ ایشو ہوگیا، یہ کون سا قانون ہے، عام آدمی کو پاسپورٹ بنوانے کےلئے دھکے کھانے پڑتے ہیں۔ ۔۔۔۔
ایک طرف لندن فیصلے قبول نہیں تو دوسری جانب حکومت سے بات چیت پر” مشروط آمادگی“ بھی ظاہر کی جا رہی ہے۔پی ٹی آئی کا مؤقف ہے کہ اگر حکومت یہ کہے کہ ہم قبل از وقت انتخابات کےلئے تیار ہیں تو حکومت سے مذاکرات شروع ہوسکتے ہیں۔ حکومت قبل از وقت انتخابات کےلئے تیار ہو تو دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر باقی فریم ورک طے کیا جاسکتا ہے۔ وہ فارمولا جس سے ملک میں استحکام آسکتا ہے، نواز شریف اُس کےلئے تیار نہیں تو اس کا یہی مطلب نکلے گا کہ (ن) لیگ سسٹم ڈی ریل کرنا چاہتی ہے۔۔۔۔۔۔
سیاسی و معاشی حالات سب کے سامنے ہیں ۔۔۔۔کون سسٹم چلا رہا ہے ، کون ڈی ریل کرنا چاہتا ہے ۔۔۔بے چارے عوام کو کیا خبر ، انہیں تو دال روٹی کی فکر نے ہلکان کر رکھا ہے اوپر سے بڑھتا ”سیاسی تعفن“ سانس لینے نہیں دے رہا ۔۔۔سموگ نے بھی مختلف بیماریوں میں جکڑ رکھا ہے ۔۔۔۔فوگ بھی شروع ہونیوالی ہے ۔۔۔۔جائیں تو جائیں کہاں ؟

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button