انگلینڈ ٹیم شاید غلطی سے سفید کِٹ پہن کر آگئی
جمعرات کی علی الصبح ساڑھے سات بجے جب انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے اعلان کیا کہ ان کے 11 کھلاڑی میچ کھیلنے کے لیے دستیاب ہیں تو پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میچ پر چھائے غیر یقینی کے بادل چھٹ گئے۔
جمعرات کی علی الصبح ساڑھے سات بجے جب انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے اعلان کیا کہ ان کے 11 کھلاڑی میچ کھیلنے کے لیے دستیاب ہیں تو پاکستان اور انگلینڈ کے درمیان کھیلے جانے والے پہلے ٹیسٹ میچ پر چھائے غیر یقینی کے بادل چھٹ گئے۔
اس اعلان کے بعد شائقین کرکٹ نے سٹیڈیم کی جانب رخ کیا، لیکن شاید براڈکاسٹرز اور ٹیکنیکل سٹاف میچ شیڈول کے مطابق شروع ہونے کی توقع نہیں کر رہے تھے۔
یہی وجہ تھی کہ ابتدائی اوورز میں جب نسیم شاہ کی گیند پر انگلینڈ کے اوپنر کے خلاف ایل بی ڈبلیو کی اپیل کو مسترد کیا گیا تو بابر اعظم چاہتے ہوئے بھی ریویو نہیں لے سکے، کیونکہ میچ تو شروع ہو گیا تھا لیکن ڈی آر ایس سسٹم ابھی تک فعال نہیں تھا۔
صرف اتنا ہی نہیں میڈیا باکس میں بھی یوں محسوس ہو رہا تھا کہ میچ شاید شیڈول کے مطابق نہ ہو اسی لیے میڈیا باکس میں انتظامات انٹرنیشنل میچ کے شایان شان نہ تھے۔ انٹرنیٹ کے مسائل سے جہاں میڈیا باکس میں موجود صحافیوں کے کام میں خلل تو ہو ہی رہا تھا وہیں شائقین کرکٹ کا سٹیڈیم میں داخلہ بھی ایک کڑا امتحان بنا ہوا تھا۔
متعدد شائقین جو کہ آن لائن ٹکٹ خرید کر صبح ہی پنڈی سٹیڈیم پہنچ چکے تھے ان کو درجن بھر جگہوں سے سکیورٹی چیکس کے بعد جب سٹیڈیم کے داخلی دروازے پر پتا چلا کہ موبائل میں موجود ٹکٹ پر نہیں بلکہ پرنٹڈ ٹکٹس پر ہی داخلے کی اجازت ہوگی تو کرکٹ کا جنون ان کو پھر باہر جانے پر مجبور کرتا رہا، اور وہ ٹکٹ پرنٹ کروا کر دوبارہ سے تمام سکیورٹی چیکنگ کے عمل سے گزر کر سٹیڈیم تک پہنچتے۔
خیر ابھی عشق کے امتحان اور بھی تھے۔ میچ کا آغاز ہوا تو انگلینڈ کے اوپننگ بلے بازوں نے پاکستان کے شائقین اور کھلاڑیوں دونوں کو ایک اور سرپرائز دیا۔
پنڈی سٹیڈیم میں یوں تو ٹیسٹ میچ کھیلا جارہا ہے، لیکن انگلینڈ کے اوپنر بلے بازوں نے میچ کے پہلے دن ٹیم کو جیسا آغاز فراہم کیا وہ ٹیسٹ کرکٹ نہیں بلکہ ٹی20 کرکٹ میں بھی تیز ترین آغاز جیسا تھا اور محسوس ہو رہا تھا کہ انگلینڈ کے بلے باز ٹی20 میچ کھیل رہے ہیں اور غلطی سے سفید کٹ پہن کر میدان میں اترے ہیں۔
ابتداء میں جیسے انگلینڈ کے اوپنگ بلے بازوں نے آسان وکٹ کو بھانپتے ہوئے سٹروک کھیلے بالکل بھی یہ محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ 24 گھنٹے پہلے انگلینڈ کے یہ کھلاڑی وائرس کا شکار تھے اور میچ کے لیے دستیابی پر بھی شکوک و شبہات تھے۔ انگلینڈ کی جارحانہ بلے بازی دیکھ کر لگ رہا تھا کہ شاید پاکستان کے گیند باز بھی میچ کے لیے تیار نہ تھے اور وہ پہلے انگلینڈ کی جانب سے میچ کھیلنے کی رضا مندی اور پھر اوپننگ جوڑی کا جارحانہ کرکٹ سے ’سرپرائیزڈ‘ ہوئے ہیں۔
میڈیا باکس میں موجود صحافی بھی مختلف تبصرے کر رہے تھے اور سوال پوچھے جا رہے تھے کہ ’یہ بیمار تھے تو یہ حال ہے اگر صحت مند ہوتے تو کیا کرتے؟‘
چھٹی کا دن نہ ہونے کے باوجود پنڈی سٹیڈیم کے تماشائیوں نے اپنی روایت کو برقرار رکھا اور پہلے سیشن کے اختتام تک 80 فیصد سٹیڈیم بھرا ہوا تھا۔ اس بار خواتین تماشائیوں کی تعداد بھی ماضی کے مقابلے میں زیادہ تھی۔ تماشائیوں کو پاکستان کے گیند بازوں کی جانب سے جب کوئی کارکردگی نظر نہیں آئی تو انہوں نے کھلاڑیوں پر طنز و مزاح شروع کردیا۔
ابتداء میں جب حارث روف بھی کوئی وکٹ لینے میں ناکام رہے تو اظہر محمود انکلیوژر میں بیٹھے ایک تماشائی نے آواز لگائی ’حارث بھائی! شاہین شاہ ٹی وی پر میچ دیکھتے ہوئے کیا کہہ رہے ہوں گے۔‘