چودھری پرویزالٰہی حُبِ باجوہ اور پنجاب کی ایک معروف کہاوت…حافظ شفیق الرحمن
ہر وہ لوک داستان جس کا اختتام مزاح پر ہو اُسے عام طور پر پٹھانوں، سکھوں یا میراثیوں کے فرضی کرداروں کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے
ہر وہ لوک داستان جس کا اختتام مزاح پر ہو اُسے عام طور پر پٹھانوں، سکھوں یا میراثیوں کے فرضی کرداروں کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے۔ پنجاب کی ایک زبان زد عام مزاحیہ کہانی میراثی کرداروں کے ساتھ جوڑ کر اکثر و بیشتر بیان کی جاتی ہے۔ ایک میراثی اپنے درجن بھر اہل و عیال کے ہمراہ ایک شادی کی تقریب میں شریک ہوتا ہے اور یہ پورا خاندان تمام رسمیں بھرپور انجوائے کرتا اور سیر ہو کر کھانا کھاتا ہے۔ جب شادی کی تمام رسومات اختتام کو پہنچتی ہیں اور بات لین دین پر آجاتی ہے پنجاب کے لوگ جانتے ہیں کہ شادیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ مخصوص انداز میں مالی لین دین کیاجاتا ہے۔ ایک خاندان اگر کسی شادی میں تحائف یا پیسوں کی شکل میں ”نیوندرا“ دیتا ہے تو اپنی شادی پر اُسے وصول بھی کرتا ہے۔ یہ ایک ایسی پختہ رسم ہے کہ کوئی چاہتے ہوئے بھی اس لین دین سے مکر نہیں سکتا تو میراثی فیملی نے جب خوب کھا پی لیا اوران کے پاس ”نیوندرا“ دینے کے لئے کچھ نہیں تھا تو بزرگ میراثی کوایک ترکیب سوجھی اور وہ اپنے بیوی بچوں کولے کر گھر کی چھت کے اوپر جا کر بیٹھ گیا تو ہر آتے جاتے نے اُس فیملی کو حیرت سے دیکھنا شروع کر دیا، کچھ مہمانوں نے اہل خانہ کے ہمراہ انہیں دیکھ کر حیرت سے مخاطب کرتے ہوئے کہا یہ کون ہیں؟ بس یہ جملے بزرگ میراثی کے کانوں تک پہنچنے کی دیر تھی کہ اس نے وہیں پر آہ و بکا شروع کر دی کہ ”ہن اسی کون ہو گئے“ اور ساتھ ہی اس نے ردعمل کے طور پر بیوی بچوں کو جھڑکیاں دیتے ہوئے کہا جس گھر میں ہماری عزت نہیں اور جہاں ہمیں اجنبی سمجھا جارہا ہے یہاں سے نکلو اور یوں بزرگ میراثی ”نیوندرا“ دئیے بغیر بڑے کروفر کے ساتھ ہنگامہ شادی سے خود کو اور اپنے بیوی بچوں کو بحفاظت دور لے گیا۔
چودھری پرویزالٰہی نے اپنے درجن بھر مصاحبین کی طاقت سے مسائل کا شکار تحریک انصاف کو رام کیا اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ لے اُڑے، خوب کھایا پیا، اقتدار کی تمام رسموں کو جی بھر کرانجوائے کیا اور جیسے ہی قیمت (نیوندرا) ادا کرنے کا مرحلہ آیا اور عمران خان نے اسمبلیاں توڑنے کی تاریخ دی تو چودھری پرویزالٰہی کو اور کچھ نہ سوجھی تو انہوں نے کہا کہ خبردار اگر کسی نے باجوہ کی طرف انگلی کا اشارہ بھی کیا وہ ہم سب کے محسن ہیں۔ اگر کسی نے باجوہ کو کچھ کہا تو پھر میرے سے برا کوئی نہیں ہو گا۔ میں اورمیری پارٹی اس پر سخت ردعمل دیں گے۔ یہی نہیں انہوں نے شادی والے گھر میں ”نیوندرا“ ڈالے بغیر گج وج کر کھڑے رہنے اور اقتدار کی باقی ماندہ رسومات ادا کرنے کے لئے مزید یہ بھی کہا کہ باجوہ ہمارا بھی محسن ہے اور تحریک انصاف کا بھی محسن ہے، محسنوں کے بارے میں زبان درازی اچھی بات نہیں لہٰذا اوقات میں رہا جائے۔چودھری پرویزالٰہی کی ساری زندگی ”سیاسی جوڑ توڑ اور توڑ جوڑ“میں گزری ہے انہوں نے عمران خان کو بھی لال رومال دکھایا اور اس کے ساتھ ساتھ ”اوپر والی“ رجیم چینج کو بھی بھرپور پیغام بھجوایا ہے کہ فکر والی کوئی بات نہیں قدم بڑھاتے چلے جاؤ اور ہمیں ساتھ پاتے چلے جاؤ، چودھری پرویزالٰہی جنرل (ر) مشرف کو ان کے اقتدار کی آخری سانس تک بار بار وردی میں منتخب کروانے کی قراردادوں کا تحفہ پیش کرتے رہے ہیں انھیں خوش رہنا اور خوش رکھنا خوب آتا ہے ۔ چودھری پرویزالٰہی خوب جانتے ہیں کہ پاکستان میں اقتدار حاصل کرنے کے لئے کس دیوی کی آشیر باد ضروری ہے اور وہ دیوی کس نگر میں بستی ہے اور اسے رام کرنے کے لئے کس قسم کی پوجا پاٹھ، منتر ونتر، اشلوک وشلوک درکار ہوتے ہیں۔ وہ سارے بھجن اور بھاشن ان کی انگلیوں پر نقش ہیں۔ باجوہ صاحب کو تحریک انصاف کا محسن قرار دے کر چودھری پرویزالٰہی نے تحریک انصاف کے زخموں پر صرف نمک ہی نہیں چھڑکا بلکہ ساتھ مرچیں بھی ملی ہیں چونکہ عمران خان کو کوچہ اقتدار سے انتہائی ذلت آمیز انداز کے ساتھ نکالنے کی بات ابھی زیادہ پرانی نہیں ہے اور عمران خان پر گولیاں برسائے جانے اور ان کی جان لینے اور پھر ان کی ایف آئی آر کا اندراج نہ ہونے دینا بھی کوئی پرانی بات نہیں ہے۔ جو کچھ شہباز گل کے ساتھ ہوا اور جو کچھ اعظم سواتی کے ساتھ ہورہا ہے اور پارٹی کے دیگر قائدین کے ساتھ محترم باجوہ صاحب کے ہوتے ہوئے جو کچھ ہوتا رہا وہ کہانی بھی سنائے اور دہرائے جانے کے قابل نہیں ہے۔ عمران خان صاحب کی ذاتی زندگی پر کیچڑ اچھالنے کے لئے کہاں کہاں سیل کام کرتے رہے اور عمران خان کو کس کس انداز کے ساتھ ذہنی اذیت سے دوچار کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں وہ بھی عمران خان صاحب کو تفصیل اور تفسیر کے ساتھ یاد ہے۔ فارن فنڈنگ کیس ہو،فرح گوگی کی میڈیا مہم ہویا توشہ خانہ کی داستان یہ کہانیاں کہاں بیٹھ کر لکھی جاتی تھیں کچھ راز دان حرف بہ حرف عمران خان کو روزانہ کی بنیاد پر بتاتے رہتے تھے۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کو چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے یہ یاد کروانا کہ محسن کشی اچھی چیز نہیں ان کے لئے دل چیردینے والا جملہ ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے بھی بڑے محتاط انداز میں چودھری پرویزالٰہی کو یہ باور کروایا گیا ہے 10ووٹوں کے ساتھ پنجاب کی وزارت اعلیٰ حاصل کر کے آنکھیں دکھانا بھی کوئی شرافت نہیں ہے اور کیا 10ووٹوں کے ساتھ حکومت دینے والوں کو آنکھیں دکھانا محسن کشی نہیں ہے؟۔بہرحال مونس الٰہی خاصے متحرک ہیں، جرأت مندانہ فیصلے کرنے کے حوالے سے وہ چودھری ظہورالٰہی کے نقش قدم پر ہیں۔ مونس الٰہی اپنے والد گرامی کے متنازع انٹرویو کا ترجمہ اپنے انداز سے کرکے عمران خان کو ٹھنڈا کرنے کی کوششیں کررہے ہیں لیکن ایک بات طے ہے کہ اس بات اگر مونس الٰہی نے عارضی اقتدار کے لئے عمران خان کو دھوکہ دیا تو وہ اقتدار کی اگلی فلم کے نمبروں میں مارے جائیں گے۔ مونس الٰہی بھی نوجوان ہیں اور آج کی سیاست بھی نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے۔