پاکستاناہم خبریں

پاکستان میں عام انتخابات سے قبل ووٹر رجسٹریشن میں بڑی رکاوٹ: شناختی کارڈ پر نامکمل پتے، غیرمنظم آبادیاں اور تاخیر کا خدشہ

الیکشن کمیشن نے حکومت کو اس صورتحال پر مبنی ایک تفصیلی سفارشاتی پیکیج ارسال کیا ہے

وائس آف جرمنی اردو نیوز نیوز ڈیسک خصوصی رپورٹ:
پاکستان میں آئندہ عام انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن آف پاکستان کو سب سے بڑے اور بنیادی چیلنج کا سامنا ووٹرز کی درست رجسٹریشن اور انتخابی فہرستوں کی تیاری کے ضمن میں درپیش ہے، جس کی بڑی وجہ شناختی کارڈز پر درج نامکمل یا غیر واضح پتے، غیر منظم نئی ہاؤسنگ سوسائٹیز، اور تیزی سے پھیلتی آبادیاں ہیں۔ اس مسئلے نے انتخابی عمل کو نہ صرف پیچیدہ بنا دیا ہے بلکہ انتخابات کے التوا جیسے خدشات کو بھی جنم دیا ہے۔

الیکشن کمیشن نے حکومت کو اس صورتحال پر مبنی ایک تفصیلی سفارشاتی پیکیج ارسال کیا ہے، جس میں قانونی، انتظامی اور آئینی اصلاحات تجویز کی گئی ہیں تاکہ مستقبل میں انتخابات کے دوران ان مسائل سے بچا جا سکے۔


شناختی کارڈ پر ’نامکمل پتے‘، ووٹرز کی شناخت اور حلقہ بندی کا عمل متاثر

الیکشن کمیشن کے مطابق، شناختی کارڈز پر اکثر گلی، مکان نمبر یا بستی کا نام درج نہیں ہوتا، جس کے باعث ووٹرز کو کسی مخصوص حلقے میں ایڈجسٹ کرنا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر، اسلام آباد کے علاقے کوٹ ہتھیال میں 60 مردم شماری بلاکس موجود ہیں، لیکن بیشتر شناختی کارڈز پر صرف "کوٹ ہتھیال” درج ہوتا ہے، جس سے ووٹ کی درست جگہ منتقلی ممکن نہیں ہوتی۔

یہی نہیں، نادرا کی جانب سے جاری شناختی کارڈز میں مختصر اور عمومی پتوں کی وجہ سے الیکشن کمیشن، امیدواروں اور خود ووٹرز کو بھی مختلف مراحل پر دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔


نادرا کو مکمل پتے درج کرنے کی ہدایت دی جائے: الیکشن کمیشن کی تجویز

الیکشن کمیشن نے وفاقی حکومت کو تجویز دی ہے کہ وہ نادرا کو ہدایت دے کہ موجودہ اور نئے شناختی کارڈز پر مکمل پتہ، بشمول گلی نمبر، بستی اور مکان نمبر لازمی طور پر درج کیے جائیں تاکہ انتخابی فہرستوں میں ووٹ کی درست جگہ پر رجسٹریشن ممکن ہو سکے۔


غیر رجسٹرڈ ہاؤسنگ سوسائٹیز اور تیزی سے پھیلتی آبادیاں بھی بڑا چیلنج

کمیشن کے مطابق، غیر رجسٹرڈ ہاؤسنگ سوسائٹیز اور نئی آبادیاں جہاں باقاعدہ نقشہ، گلیوں یا مکانوں کے نمبر موجود نہیں ہوتے، وہاں پولنگ اسٹیشن قائم کرنا، فہرستوں کی تیاری اور ووٹرز کی تصدیق کا عمل نہایت پیچیدہ ہو جاتا ہے۔

کمیشن نے تجویز دی ہے کہ:

  • نئی سوسائٹیز کو این او سی اسی صورت دیا جائے جب وہ ماسٹر پلان پر عملدرآمد کریں۔

  • ایسی سوسائٹیز جہاں گلی اور مکان نمبر موجود نہ ہوں، انہیں این او سی نہ دیا جائے۔

  • پرانی سوسائٹیز اور دیہی علاقوں کی گلیوں اور مکانات کو بھی نمبر الاٹ کیے جائیں تاکہ ووٹر رجسٹریشن کے مسائل حل ہو سکیں۔


مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیاں: عام انتخابات میں تاخیر کی وجہ

الیکشن کمیشن نے اپنی رپورٹ میں تسلیم کیا ہے کہ گزشتہ عام انتخابات میں مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیوں کی ضرورت نے انتخابات میں تاخیر پیدا کی۔ اس مسئلے کے مستقل حل کے لیے کمیشن نے دو اہم آئینی و قانونی تجاویز پیش کی ہیں:

  1. آرٹیکل 51 میں ترمیم کی جائے تاکہ اگر اسمبلیوں کی مدت ختم ہونے سے 6 ماہ قبل مردم شماری ہو، تو نئی حلقہ بندیاں نہ کی جائیں، اور انتخابات پرانے حلقوں پر ہی کروائے جائیں۔

  2. الیکشنز ایکٹ 2017 کے سیکشن 17(2) میں بھی ترمیم کی جائے تاکہ الیکشن سے قبل مردم شماری کے باوجود حلقہ بندیاں موخر کی جا سکیں۔

ان ترامیم کا مقصد یہ ہے کہ انتخابی عمل میں بلاوجہ تاخیر نہ ہو اور جمہوری تسلسل قائم رکھا جا سکے۔


ووٹر لسٹوں کی تصدیق کے لیے عملے کی بھرتی: قانونی سقم اہم رکاوٹ

ووٹر فہرستوں کی تصدیق کے لیے الیکشن کمیشن دوسرے سرکاری محکموں سے افسران کو بطور سپروائزر یا ویریفائنگ آفیسر تعینات کرتا ہے۔ تاہم ان افسران کی قانونی حیثیت واضح نہ ہونے کے باعث اگر وہ اپنی ذمہ داریاں ٹھیک طریقے سے ادا نہ کریں تو ان کے خلاف کارروائی ممکن نہیں ہوتی۔

الیکشن کمیشن نے اس کا حل بھی پیش کیا ہے:

  • الیکشنز ایکٹ میں ترمیم کر کے ووٹر رجسٹریشن اور تصدیق پر مامور تمام عملے کو "الیکشن آفیشل” قرار دیا جائے تاکہ ان پر قانونی ذمہ داری لاگو ہو سکے۔


وزارت قانون کا ردعمل: سفارشات قابل غور، مگر قابل عمل ہونے کا جائزہ لیا جا رہا ہے

وزارت قانون کے حکام کے مطابق، الیکشن کمیشن کی تجاویز کا تفصیلی جائزہ لیا جا رہا ہے۔ ان پر عمل درآمد کی قانونی حیثیت، مالی وسائل، انتظامی ڈھانچے اور نادرا جیسے متعلقہ اداروں کی آمادگی کو مدنظر رکھتے ہوئے فیصلہ کیا جائے گا۔

حکام کا کہنا ہے کہ حکومت کا ہدف ایک شفاف، منظم اور بروقت انتخابی عمل کو یقینی بنانا ہے، اور اس سلسلے میں ہر قابل عمل تجویز کو سنجیدگی سے دیکھا جا رہا ہے۔


نتیجہ: انتخابات کی شفافیت کے لیے بنیادی اصلاحات ناگزیر

الیکشن کمیشن کی جانب سے دی گئی سفارشات اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان کا انتخابی نظام صرف انتخابی دن کی حد تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل، مسلسل اور منظم عمل ہے جس کی شفافیت ووٹرز کے درست ڈیٹا سے جڑی ہے۔

شناختی کارڈ پر مکمل پتہ، منظم ہاؤسنگ سوسائٹیز، واضح حلقہ بندیاں، اور تربیت یافتہ انتخابی عملہ—یہ سب عوامل مل کر ایک شفاف، بروقت اور قابل اعتبار انتخابات کی ضمانت دے سکتے ہیں۔

اب یہ حکومت، پارلیمان اور متعلقہ اداروں کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ وہ ان سفارشات پر سنجیدگی سے غور کریں، اور آنے والے انتخابات کو پاکستان کی جمہوری تاریخ میں ایک مثبت اور فیصلہ کن موڑ بنا دیں۔


اہم نکات کا خلاصہ:

  • شناختی کارڈ پر نامکمل پتوں کی وجہ سے ووٹرز کی درست رجسٹریشن میں رکاوٹ

  • غیر رجسٹرڈ ہاؤسنگ سوسائٹیز اور تیز پھیلتی آبادیاں انتخابی عمل میں پیچیدگی کا باعث

  • مردم شماری کے بعد نئی حلقہ بندیوں سے انتخابات میں تاخیر؛ آئینی ترامیم تجویز

  • ووٹر لسٹ کی تصدیق کرنے والا عملہ قانونی تحفظ کے بغیر؛ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی تجویز

  • وزارت قانون ان سفارشات پر غور کر رہی ہے کہ یہ کس حد تک قابل عمل ہیں

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button