پاکستان پریس ریلیزاہم خبریں

پنجاب کابینہ نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی کی منظوری دے دی، سفارشات وفاقی حکومت کو ارسال – لاہور میں امن و امان کو چیلنج کرنے پر سخت اقدامات

صوبائی حکومت شہریوں کے جان و مال کے تحفظ، ریاستی رٹ کی بحالی، اور امن و امان کے قیام کو ہر حال میں یقینی بنائے گی۔

سید عاطف ندیم-پاکستان،وائس آف جرمنی اردو نیوز کے ساتھ

لاہور: پنجاب حکومت نے حالیہ احتجاجی مظاہروں، پولیس پر حملوں، اور امن و امان کی سنگین خلاف ورزیوں کے بعد مذہبی سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) پر پابندی لگانے کی باقاعدہ منظوری دے دی ہے۔ یہ فیصلہ صوبائی کابینہ کے اجلاس میں کیا گیا جس کے بعد ایک سفارشاتی مراسلہ وفاقی حکومت کو ارسال کر دیا گیا ہے تاکہ آئندہ اقدامات آئین اور قانون کے مطابق اٹھائے جا سکیں۔

پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمٰی بخاری نے جمعے کے روز لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اس فیصلے کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ "ایک مذہبی جماعت کے احتجاج کا ایسے وقت میں کوئی جواز باقی نہیں رہتا جب غزہ میں فریقین کے مابین جنگ بندی ہو چکی ہے اور فلسطینی عوام اس فیصلے پر اطمینان کا اظہار کر رہے ہیں۔”

احتجاج کے نام پر انتشار کی اجازت نہیں دی جا سکتی، حکومت کا واضح مؤقف

عظمٰی بخاری کا کہنا تھا کہ احتجاج کے نام پر سڑکیں بند کرنا، شہریوں کی زندگی مفلوج کرنا، سرکاری و نجی املاک کو نقصان پہنچانا اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر حملہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ صوبائی حکومت شہریوں کے جان و مال کے تحفظ، ریاستی رٹ کی بحالی، اور امن و امان کے قیام کو ہر حال میں یقینی بنائے گی۔

انہوں نے کہا کہ "حکومت نے مذکورہ جماعت سے بارہا مذاکرات کیے، انہیں بتایا کہ غزہ میں جنگ بندی کے بعد وہاں خوشیاں منائی جا رہی ہیں، لیکن اس کے باوجود مارچ اور مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھا گیا۔”

پولیس پر حملے، ریاستی اداروں کو نشانہ بنانے کی شدید مذمت

وزیر اطلاعات نے انکشاف کیا کہ مظاہروں کے دوران پولیس کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ "ایک ایس ایچ او کو 26 گولیاں لگیں اور وہ شہید ہو گیا، 69 پولیس اہلکار ایسے ہیں جو مستقل معذور ہو چکے ہیں جبکہ 200 سے زائد اہلکار شدید زخمی ہیں۔ کُل زخمی اہلکاروں کی تعداد 1500 سے تجاوز کر چکی ہے۔”

انہوں نے کہا کہ "ستھرا پنجاب اور پولیس کی گاڑیاں غزہ کی آزادی میں رکاوٹ نہیں تھیں، پھر بھی ان کو جلایا گیا اور حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ رویہ سراسر ریاست دشمنی کے مترادف ہے۔”

عوام اور تاجر برادری نے احتجاج کو مسترد کر دیا

عظمٰی بخاری نے دعویٰ کیا کہ جمعے کی نماز کے بعد احتجاج کی جو کال دی گئی تھی، اسے عوام اور تاجر برادری نے مکمل طور پر مسترد کر دیا۔ "یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام اب کسی مذہبی یا سیاسی جماعت کے ذریعے ملک کو مفلوج کرنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔”

انہوں نے مزید کہا کہ مذاکرات کے دوران مذہبی جماعت کی جانب سے ذاتی مفادات پر مبنی مطالبات کیے گئے، جن میں مذہبی انتہاپسندی میں ملوث افراد کی رہائی اور مقدمات ختم کرنے کی بات کی گئی۔ "یہ کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔”

ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا اعلان

اس سے قبل جمعرات کو لاہور میں وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی زیر صدارت ایک اعلیٰ سطحی اجلاس منعقد ہوا جس میں واضح کیا گیا کہ ریاستی رٹ کو چیلنج کرنے والے افراد یا گروہوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ امن و امان کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرنے والے عناصر کے خلاف قانون کے مطابق بلاامتیاز کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔

لانگ مارچ کا پس منظر اور موجودہ صورتحال

تحریک لبیک پاکستان نے چند روز قبل لاہور سے اسلام آباد کی جانب "لبیک مارچ” کا آغاز کیا تھا، جس کا مقصد مبینہ طور پر غزہ کے مسلمانوں سے اظہار یکجہتی اور حکومت پر مختلف مطالبات کے لیے دباؤ ڈالنا تھا۔ تاہم پیر کی صبح لاہور کے نواحی علاقے مریدکے میں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کریک ڈاؤن کرتے ہوئے مارچ کو منتشر کر دیا تھا۔

ذرائع کے مطابق اس دوران مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئیں، جس کے نتیجے میں جانی و مالی نقصان ہوا اور متعدد پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے آئندہ اقدام متوقع

پنجاب کابینہ کی جانب سے بھیجے گئے مراسلے کے بعد اب وفاقی حکومت اس پر غور کرے گی اور ممکنہ طور پر انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کے تحت تحریک لبیک پاکستان پر باضابطہ پابندی عائد کرنے کا فیصلہ کیا جا سکتا ہے۔ اگر ایسا ہوا تو ٹی ایل پی کو کالعدم تنظیموں کی فہرست میں شامل کر دیا جائے گا، جس کے بعد اس کے تمام دفاتر، اثاثے اور سرگرمیاں غیر قانونی قرار دے دی جائیں گی۔


تجزیہ

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اقدام ایک فیصلہ کن موڑ ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ حکومت اب ریاستی رٹ کے خلاف کسی بھی سرگرمی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ تاہم اس فیصلے کے سیاسی، قانونی اور سماجی اثرات آئندہ دنوں میں واضح ہوں گے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب مذہبی حساسیت اور عوامی جذبات کا سامنا کرنا کسی بھی حکومت کے لیے ایک نازک معاملہ ہوتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button