سپریم کورٹ کے 8 رکنی لارجر بینچ نے چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے سے متعلق قانون (سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل 2023) پر عمل درآمد روک دیا۔
آٹھ رکنی بینچ کے تحریری حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’بل پر صدر دستخط کریں یا نہ کریں دونوں صورتوں میں اس پر عمل درآمد نہیں ہوگا۔‘
جمعرات کو سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ نے سماعت کے بعد آٹھ صفحات پر مبنی عبوری حکم نامہ جاری کیا۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ ’عدالت کسی قانون کو معطل نہیں کر سکتی، بادی النظر میں بل کے ذریعے عدلیہ کی آزادی میں مداخلت کی گئی۔‘
’عدلیہ کی آزادی میں مختلف طریقوں سے براہ راست مداخلت کی گئی ہے، بل قانون کا حصہ بنتے ہی عدلیہ کی آزادی میں مداخلت شروع ہو جائے گی۔‘
آٹھ رکنی بینچ کے تحریری حکم نامے میں مزید کہا گیا ہے کہ ’بل پر عبوری حکم کے ذریعے عمل درآمد روکنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔‘
یاد رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے بدھ کو سپریم کورٹ کے اختیارات کے حوالے سے قانون سازی کے معاملے پر سپریم کورٹ کا 8 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔
چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 8 رکنی بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید شامل ہیں۔
یاد رہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ سے سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کی منظوری کے بعد اسے دستخط کے لیے صدر مملکت کے پاس بھیجا گیا تھا۔
تاہم صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور شدہ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل پر دستخط نہیں کیے تھے اور اسے نظرِثانی کے لیے واپس پارلیمنٹ کو بھیج دیا تھا۔
بل واپس بھیجتے ہوئے صدر عارف علوی نے کہا تھا کہ ’بادی النظر میں یہ بل پارلیمنٹ کے اختیار سے باہر ہے۔‘
’بل قانونی طور پر مصنوعی اور ناکافی ہونے پر عدالت میں چیلنج کیا جا سکتا ہے۔ میرے خیال میں اس بِل کی درستی، جانچ پڑتال اور دوبارہ غور کرنے کے لیے واپس کرنا مناسب ہے۔‘
صدر مملکت کا کہنا تھا کہ ’آئین سپریم کورٹ کو اپیل، ایڈوائزری، ریویو اور ابتدائی اختیار سماعت سے نوازتا ہے، مجوزہ بِل آرٹیکل 184 تین، عدالت کے ابتدائی اختیار سماعت سے متعلق ہے۔‘
تاہم حکومت نے اس بل کو دوبارہ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے 10 اپریل کو منظور کروایا تھا۔
بل کو منظوری کے بعد دوبارہ دستخط کے لیے صدر مملکت کے پاس بھیج دیا گیا تاہم صدر نے ابھی تک اس بل پر دستخط نہیں کیے۔
مشترکہ اجلاس سے منظوری کے بعد اگر صدر مملکت 10 روز کے اندر بل پر دستخط نہیں کرتے تو بل خود بخود قانون بن جائے گا۔
واضح رہے کہ پارلیمان سے پاس کردہ سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے خلاف تین درخواستیں دائر کی گئیں۔ درخواستوں میں پارلیمنٹ سے منظورکردہ بل کو کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی ہے۔
ان درخواستوں میں کہا گیا ہے کہ ’پارلیمان کو سپریم کورٹ کے معاملات میں مداخلت کا کوئی آئینی اختیار نہیں۔‘
’سپریم کورٹ کے رولز 1980 میں بنے تھے جبکہ آرٹیکل 184/3 کے تحت اپیل کا حق نہیں دیا گیا تو ایکٹ کے تحت بھی حق نہیں دیا جا سکتا۔‘