جنوبی افریقہ میں زبردستی نس بندی: ’انھوں نے میری پوری نسوانیت کو چوری کیا ہے‘
[ad_1]
جنوبی افریقہ میں ایک خاتون نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ کس طرح 17 برس کی عمر میں بچے کی پیدائش کے بعد ان کی رضامندی کے بغیر ان کی نس بندی کی گئی۔ انھیں اس بات کا علم 11 سال بعد اس وقت ہوا جب اُن میں ایک اور بچہ پیدا کرنے کی خواہش جاگی۔
کمیشن برائے صنفی امتیاز کو علم ہوا کہ سرکاری ہسپتالوں میں جن 48 خواتین کی رضامندی کے بغیر نس بندی کی گئی تھی ان میں بونجائیل مسیبی بھی شامل تھیں۔
ایک قانونی ادارہ ہونے کے باوجود کمیشن نے کہا کہ اس کی تحقیقات میں رکاوٹ کی ایک بڑی وجہ مریضوں کی فائلوں کی ’گمشدگی‘ اور کمیشن کے تفتیش کاروں کو ہسپتال کے عملے کی طرف سے ’مخالفانہ رویے کا سامنا‘ ہے۔
کمیشن نے بتایا کہ شہری حقوق کی تنظیموں کی جانب سے سنہ 2001 تک کے ایسے کیس سامنے لائے جانے کے بعد اس کے تفتیش کاروں نے 15 ہسپتالوں کا دورہ کیا۔
یہ بھی پڑھیے
درجنوں خواتین کو ’بانجھ بنانے والا‘ ڈاکٹر عدالت میں پیش
اندام نہانی کے پانچ حقائق ہر خاتون کو معلوم ہونے چاہییں
مینوپاز خواتین کی صحت پر کیسے اثر انداز ہوتا ہے؟
جنوبی افریقہ کے محکمہ صحت نے ابھی تک کمیشن کی اس رپورٹ پر فوری طور پر کوئی تفصیلی ردعمل نہیں دیا لیکن وزیر صحت زولی میخیز نے اس پر بات کرنے کے لیے کمیشن سے ایک ملاقات کی درخواست کی تھی۔
مسیبی پر کیا بیتی
میں بچے کو جنم دینے کے بعد اٹھی اور اپنے جسم کے نچلے حصے کی جانب دیکھا اور طبی عملے سے پوچھا ’میرے پیٹ پر بہت بڑی پٹی کیوں بندھی ہے؟‘
لیکن مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ میں نے کچھ دیر قبل اپنی بیٹی کو جنم دیا تھا۔ وہ ایک بہت صحت مند بچی تھی۔ مجھے بے ہوش کر کے میرا سی سیکشن آپریشن کیا گیا تھا۔
میں نے ایک صحت مند بچی اور اپنے پیٹ پر ایک بہت بڑے نشان کے ساتھ بچی کی پیدائش کے پانچ دن بعد ہی ہسپتال سے چھٹی لے لی تھی۔
مجھے اگلے 11 برس تک یہ علم ہی نہیں ہوا کہ میرے ساتھ کیا ہوا تھا۔
میں جب دوبارہ حاملہ ہونے کی کوشش کر رہی تھی تو مجھ پر ایک انکشاف ہوا۔
میں پہلی بچی کے پیدائش کے بعد سے تمام وقت مانع حمل ادویات استعمال کر رہی تھی اس لیے مجھے ماہواری نہ آنا کوئی انہونی بات نہیں تھی۔
لیکن پھر میری منگنی ہو گئی اور میں ایک اور بچہ پیدا کرنا چاہتی تھی لہذا میں اپنے ڈاکٹر کے پاس گئی۔ اس نے میرا معائنہ کیا اور مجھے بٹھا لیا۔ مجھے پانی کا گلاس دیا اور بتایا کہ میری بچہ دانی سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔
’یہ بہت بڑا ظلم ہے‘
میں مکمل طور پر ٹوٹ چکی تھی اور الجھن کا شکار تھی۔ یہ بات مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کیونکہ میں پہلے ہی ایک بچے کی ماں تھی۔
میں نے سوچا کہ میری بچہ دانی کو میری بیٹی کی پیدائش کے وقت ہی نکالا گیا ہو گا اور ایسا صرف پہلی بچی کی پیدائش کے وقت ہی ممکن تھا۔ ہہ بہت بڑا ظلم تھا جو انھوں نے میرے ساتھ کیا تھا۔
میں میڈیا کے پاس گئی، پھر وزارت صحت اور بالآخر میری جدوجہد اس ہسپتال میں ختم ہو گئی جہاں میں نے اپنی بیٹی کو جنم دیا تھا۔ وہاں وہ ڈاکٹر بھی موجود تھے جنھوں نے اس دن میرا آپریشن کیا تھا۔
انھوں نے مجھ سے اس فعل پر معذرت نہیں کی بلکہ مجھے بتایا کہ انھوں نے میری نس بندی میری زندگی بچانے کے لیے کی تھی۔ مجھے آج تک علم نہیں کہ وہ میری زندگی کس سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ہسپتال میں اس بارے میں کوئی ریکارڈ موجود نہیں تھا۔
اور میں اکیلی نہیں تھی، ایک تحقیق کے نتیجہ میں یہ بات سامنے آئی کے میرے ساتھ 47 دیگر خواتین بھی تھیں۔ ان میں سے بعض خواتین کو انھوں نے بتایا کہ انھیں ایڈز کا مرض تھا اس لیے ایسا کیا، لیکن مجھے نہیں پتا کہ انھوں نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا۔
ڈاکٹر نے مجھے بتایا کہ میں نے اس ضمن میں ایک اجازت نامے پر دستخط کیے تھے۔ جبکہ میں نے کسی اجازت نامے پر دستخط نہیں کیے تھے۔ اس وقت میں نابالغ تھی اور میں ایسا کر بھی نہیں سکتی تھی۔
پھر انھوں نے کہا کہ میری والدہ نے اجازت نامے پر دستخط کیے تھے جو میری بیٹی کے پیدائش کے وقت میرے ساتھ تھیں۔ لیکن میری والدہ کا کہنا تھا کہ انھوں نے بھی کسی ایسے اجازت نامے پر دستخط نہیں کیے تھے۔
اس خبر نے میری زندگی بدل دی
آخر کار میں اپنے منگیتر سے علیحدہ ہو گئی۔ مجھے اسے چھوڑنا پڑا کیونکہ وہ بچے چاہتا تھا جو میں اسے نہیں دے سکتی تھی۔ جب میں اپنے ڈاکٹر سے ملی تو مجھ سے پوچھا گیا کہ میں کیا چاہتی ہوں۔
میں بہت شدت سے ایک بچہ چاہتی تھی۔ جب میں نے اسی ہفتے اپنی ایک ساتھی کو حاملہ دیکھا تو مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میری بیٹی بھی اپنے بہن بھائی چاہتی ہے اور جب ہم گلی سے بچوں کو گزرتا دیکھتے ہیں تو وہ کہتی ہے کہ میں بھی اس کے لیے ایک بہن بھائی لاؤں۔
میری اوریز ابھی بھی موجود ہیں اور میں سمجھتی ہوں ہسپتال کو اب ’سروگیسی‘ کی قیمت ادا کرنا چاہیے۔ میں یہ بھی چاہتی تھی کسی کو اس کا ذمہ دار ٹھہراؤں۔
ہم ڈاکٹروں کو یہ کام جاری رکھنے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ بطور خواتین ہمارے حقوق پامال ہو رہے ہیں۔ ڈاکٹروں کو یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ ان پر نظر رکھی جا رہی ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں جب ہم بے ہوش ہوتے ہیں۔
اور پھر میں یہ چاہتی تھی کہ وہ ڈاکٹر جس نے میرے ساتھ ایسا کیا وہ مجھ سے معافی مانگے۔ جس طرح سے اس معاملے سے نمٹا گیا آپ کو ایسا لگے گا کہ جیسے انھوں نے میری ایک انگلی کاٹی ہو جب کہ حقیقت یہ ہے کہ انھوں نے میری پوری نسوانیت کو چوری کیا ہے۔
میں اسے کبھی بھلا نہیں سکتی اور میرے پیٹ پر یہ نشان ہمیشہ اس کی یاد دلاتا رہے گا۔
Source link
International Updates by Focus News