حافظ شفیق الرحمنکالمز

استحکام پاکستان بذریعہ صنعت لوٹا سازی: مملکت لوثستان کا قیام …..حافظ شفیق الرحمن

بر صغیر کی پہلی لوٹا شخصیات میں ڈاکٹر عالم کا نام سر فہرست ہے۔ ڈاکٹر عالم کی روح آج خوش ہوگی کہ ان کا بویا ہوا بیج آج جھاڑ جھنکار کا ایک گھنا جنگل بن چکا ہے

شنید ہے کہ جہانگیر ترین کی زیر تعمیر پارٹی کانام استحکام پاکستان تجویز کیا گیا ہے۔ پارٹی کے تخلیق کار کون ہیں۔ عیاں را چہ بیاں ! جو بھی ہیں ، ہمیں اس سے کیا لینا دینا ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ صنعت لوٹا سازی کے فن میں طاق ہیں ۔۔۔ محرمان اسرار کے مطابق 5 جولائی 1977ء یہ کئی جماعتیں اور اتحاد بنا چکے ہیں۔ نیشنل پیپلز پارٹی ، مساوات پارٹی ، پیپلز پارٹی (پارلیمنٹیرین) پیپلز پارٹی ( شہید بھٹو گروپ ) کنونشن مسلم لیگ ، مسلم لیگ (فنکشنل) مسلم لیک (جونیجو گروپ) ، مسلم لیگ (نواز شریف گروپ) مسلم لیگ (ق گروپ) ، مسلم لیگ (ملک قاسم گروپ) پیپلز پارٹی ( پیٹریاٹ) آئی جے آئی ، میثاقِ جمہوریت ، بلوچستان عوامی پارٹی ، عوامی نیشنل پارٹی ، ایم کیو ایم ، پی ایس پی ، سرائیکی اتحاد ، سنی تحریک ، سپاہ صحابہ ، سپاہ محمد ، جے یو آئی ( تھانوی گروپ) جے یو آئی ( مفتی محمود گروپ ) جے یو آئی ( درخواستی گروپ ) جے یو آئی ( سمیع الحق گروپ ) ۔۔۔ اور نہ جانے کتنی پارٹیاں سیاسی افق پر ٹمٹمائیں اور نیست و نابود ہوگئیں۔ ان جماعتوں کے قیام کے لیے پرانی جماعتوں کی اعضاء شکنی اور ان میں کمال مہارت سے پیوند کاری کی گئی۔ پی ٹی آئی بھی اسی مرحلے سے گزر رہی ہے۔ البتہ جو جماعتیں روز اول سے اپنے پورے قد کے ساتھ کھڑی ہیں ، ان میں جماعت اسلامی اور تحریک منہاج القرآن نمایاں ہیں۔
بر صغیر کی پہلی لوٹا شخصیات میں ڈاکٹر عالم کا نام سر فہرست ہے۔ ڈاکٹر عالم کی روح آج خوش ہوگی کہ ان کا بویا ہوا بیج آج جھاڑ جھنکار کا ایک گھنا جنگل بن چکا ہے۔ اس جنگل میں تازہ ترین آگنے والی جڑی بوٹی کا نام جہانگیر ترین ہے ۔۔۔ صنعت لوٹا سازی کے تجربہ کاروں نے پی ٹی آئی کے منحرفین کو ترین کے جہاز کا مسافر بنایا اور کل شب ان کی تعارفی تقریب رونمائی ایک شاندار عشائیہ میں ہوئی۔
لطف کی بات تو یہ ہے کہ ‏منحرفین کو پارٹی شروع کرنے سے پہلے ہی کاپی رائیٹ کا مسئلہ درپیش ہے ۔۔ بتایا جا رہا ہے کہ اس نام سے پہلے ہی ایک پارٹی رجسٹرڈ ہے۔ اسے کہتے ہیں سر منڈاتے ہی اولے پڑے ۔۔۔ ابھی پریس کانفرنس ہونا باقی ہے ۔
‏ویسے اگر لوٹوں سے استحکام آتا ہوتا تو ہر گھر میں آج استحکام ہوتا۔
جہانگیر ترین اگر اپنی پارٹی کانام "لوثستان” رکھ لیتے تو کیا ہی اچھا ہوتا ۔ اس نام کے پہلے حرف کو زبر کے ساتھ پڑھا جاتا تو بھی اسم با مسمی ہوتا اور اگر ل پر پیش کے ساتھ پڑھا جاتا تو تب بھی حقیقت کا آئینہ دار ہوتا ۔۔۔ لوٹے تو آ جاتے ہیں لیکن اپنے ساتھ ووٹ بنک لانے کی اہلیت تو نہیں رکھتے۔۔۔۔ووٹ بنک تو دور کی بات ہے ۔۔۔ یہ لوٹے تو پی ٹی آئی کا ایک عام ووٹر بھی ساتھ لانے کی سکت نہیں رکھتے۔ وہ تو وفاداری بہ شرطِ استواری کے تحت عمران خان کے سوا کسی کو ووٹ دینے کا تصور بھی نہیں کر رہا۔ پریس کانفرنس کرانے والی کمپنی 12 کروڑ ووٹرز سے پریس کانفرنس کرانے سے رہی۔
پی ڈی ایم کی تیرہ بڈھی کھوسٹ تجربہ کار پارٹیاں مل کر بھی عمران خان کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں ۔۔۔ تو جدی پشتی لوٹوں پر مشتمل یہ نومولود چودھویں جماعت عمران خان کا کیا بگاڑ لے گی۔
کشتیاں سب کی کناروں پر پہنچ جاتی ہیں
نا خدا نہ ہو جن کا ، ان کا خدا ہوتا ہے۔

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

Back to top button