توشہ خانہ کیس میں چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی سزا معطلی کا فیصلہ کل منگل کی صبح گیارہ بجے سنایا جائے گا۔
توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطلی کی درخواست پر سماعت چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمود جہانگیری پر مشتمل بینچ نے کی۔ الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کیا گیا۔
سماعت کا آغاز ہوا تو بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ہم نے ملاقات کی درخواست دائر کی ہے وہ سن لیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ’آج تو سزا معطلی کی درخواست پر فیصلہ ہی ہو جائے گا تو امید رکھیں۔‘ وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے کہا عدالت نے تو یہ آبزرویشن دے دی ہے۔ اب تو دلائل کی ضرورت نہیں رہی۔ جس پر چیف جسٹس نے وضاحت دی کہ ’میں نے کہا ہے آج درخواست پر فیصلہ ہو جائے گا۔‘
جس کے بعد الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے سزا معطلی کی درخواست پر دلائل شروع کر دیے۔ انھوں نے کہا کہ عمران خان کی سزا معطلی درخواست میں ریاست کو فریق نہیں بنایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ الیکشن کمیشن کی چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف پرائیویٹ کمپلینٹ ہے۔ ٹرائل کورٹ میں کہیں ریاست کا ذکر نہیں آیا، یہاں فریق بنانا کیوں ضروری ہے؟
امجد پرویز نے کہا کہ ضابطہ فوجداری میں سزا معطلی کی درخواست میں شکایت کنندہ کو فریق بنانے کا ذکر نہیں۔ استدعا ہے کہ عدالت درخواست میں ریاست کو نوٹس جاری کرے۔ ریاست کو نوٹس جاری کیے اور موقف سنے بغیر سماعت آگے نہ بڑھائی جائے۔
وکیل الیکشن کمیشن امجد پرویز نے انڈین عدالت کے متعلقہ فیصلے کا حوالہ دیتے کہا کہ راہل گاندھی کو ایک پرائیویٹ کمپلینٹ میں دو سال کی سزا ہوئی۔ راہل گاندھی نے سزا معطلی کی درخواست دائر کی جو خارج کر دی گئی۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ سزا معطل کرنا کوئی ہارڈ اینڈ فاسٹ رول نہیں ہے۔ ’میں نے عدالت کو مطمئن کرنے کے لیے پاکستانی اور غیرملکی عدالتوں کے حوالے پیش کیے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب کے کیسز میں بھی تو ریاست کو نوٹس جاری نہیں کیا جاتا۔ امجد پرویز نے کہا کہ نیب کے اپنے پراسیکیوٹرز طے شدہ ہیں اور عدالت انہیں ہی سنتی ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کیسز میں تو شکایت کنندہ کو بھی نوٹس جاری نہیں کیا جاتا۔
دلائل جاری رکھتے ہوئے امجد پرویز ایڈووکیٹ نے کہا کہ مختصر سزا معطلی ہارڈ اینڈ فاسٹ رول نہیں بلکہ عدالت کا اختیار ہے۔ یہ ملک کے سابق وزیراعظم کے خلاف کرپٹ پریکٹیسز کا سنگین کیس ہے۔
امجد پرویز نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی شکایت درست فورم پر دائر نہ ہونے کا اعتراض اٹھایا گیا۔ کرپٹ پریکٹیسز کے خلاف اِس قانون کے تحت تمام شکایات سیشن عدالت میں دائر ہوئیں۔ اگر مجسٹریٹ کی سکروٹنی والی بات مان بھی لی جائے تو ٹرائل سیشن عدالت نے ہی کرنا ہے۔
’میں ایک آئینی ادارے کے وکیل کے طور پر عدالت کے سامنے کھڑا ہوں۔ دوسرے فریق نے کہا کہ شکایت درست فورم پر دائر نہ ہونے کے باعث برقرار نہیں رہ سکتی۔ یہ بات درست نہیں ہے، بلکہ صورت حال اس کے بالکل برعکس ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کہہ رہے ہی کہ اگر یہ غلطی ہے بھی تو وہ ٹرائل کو خراب نہیں کریگی؟ امجد پرویز نے جواب دیا کہ یہ کوئی نیا قانون نہیں بلکہ ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔ کوئی ایک ایسا فیصلہ موجود نہیں جہاں کرپٹ پریکٹیسز کی شکایت مجسٹریٹ کے پاس دائر ہوئی ہو۔ یہ عدالتی دائرہ اختیار کا معاملہ ہی نہیں ہے۔ یہ کہہ رہے ہیں کہ کمپلینٹ مجسٹریٹ سے ہوکر سیشن عدالت نہیں آئی۔ دائرہ اختیار تو سیشن کورٹ کا ہی ہے۔ ایک ججمنٹ یہ پیش کردیں جس میں مجسٹریٹ سے ہوکر کمپلینٹ عدالت آئی ہو۔
عدالت نے الیکشن کمیشن کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔