چترال بونی شندور سڑک پر عمرجان کمپنی کی جانب سے غیر معیاری کام کی ویڈیو بنانے پر صحافی پر تشدد
چترال بونی شندور سڑک پر عمرجان کمپنی کی جانب سے غیر معیاری کام کی ویڈیو بنانے پر صحافی پر تشدد کرنے کی مذمت اعلے حکام سے نوٹس لینے کا مطالبہ۔ چیرمین سی ڈی ایم۔وقاص احمد ایڈوکیٹ
چترال پاکستان(انٹرنیشنل کورسپونٹنڈ گل حماد فاروقی): سی ڈی ایم یعنی چترال ڈیویلپمنٹ مومنٹ کے زیر اہتمام چترال پریس کلب میں ایک پرہجوم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہویے سی ڈی ایم کے چیرمین معروف قانون دان وقاص احمد ایڈوکیٹ، عنایت اللہ اسیر، مولانا اسرار الدین الہلال خطیب بازار مسجد، ممتاز حسین پاور ضلع اپر چترال، غازی خان گزین یارخون، صاحب نور خان پاور، تحریک تحفظ چترال کے نمایندوں، تاجر یونین، ڈراییور یونین اور سول سوسایٹی کے نمایندوں نے سینر صحافی گل حماد فاروقی پر ناقص کام کی ویڈیو بناتے ہویے عمر جان کمپنی کے مزدوروں کے نا م پر غنڈوں کی جانب سے تشدد اور قاتلانہ حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ ضلع اپر اور لویر چترال کے لاکھوں لوگ گواہ ہیں کہ چترال بونی شندور سڑک پر عمر جان کمپنی کی جانب سے نہایت ناقص اور غیر معیاری کام ہورہا ہے۔ حتیِ کہ اس ٹھیکدار کی جانب سے زیر تعمیر سڑک پر پانی بھی نہیں چڑھکایاجاتا جس کی وجہ سے اس سڑک پر سفر کرنے والے اور آس پاس رہنے والے لوگ مٹی اور گرد و غبار کی وجہ سے نہایت مشکلات سے دوچار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ عمرجان کمپنی نے غیر قانونی طور پر حفاظتی دیواروں ، کلورٹ، نکاسی آب اور دیگر کاموں کا ٹھیکہ سبلٹ کرتے ہویے غیر قانونی طور پر چھوٹے ٹھیکداروں کو دیا ہے جس کی وجہ سے اس کام کا معیار اتنا ناقص ہے کہ ابھی سے ان کی حفاظتی دیواریں گرنا شروع ہوچکی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حفاظتی دیواروں کی تعمیر میں ریت نہایت ناقص اور مٹی آلود ہونے کے ساتھ ساتھ سیمنٹ بھی کم استعمال کرتے ہیں اور مکسر مشین کی بجایے ہاتھ سے مسالہ بناتے ہیں جسے نہ مکس کرتے ہیں اور نہ سیمنٹ کے کام پر تھرای یعنی پانی ڈالتے ہیں جس کی وجہ سے وہ جل کر چند دنوں میں خاکستر ہوجاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حفاظتی دیواروں کی تعمیر میں سارا کچرا ڈال کر بھرا جاتا ہے اور پتھروں کا کو بھی کوی ایک جیسا ساخت نہیں ہوتا جسے باہر سے سیمنٹ سے چھپاتے ہیں اور باہر سے دیکھنے والے کو یوں لگتا ہے کہ سارا دیوار سیمنٹ سے بنا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ ان کا کنکریٹ پلانٹ بھی نہایت غیر معیاری اور ناقص ہے۔ جس دن یہ واقعہ پیش ایا اسی دن صحافی حضرات ریشن سے لویر چترال ارہے تھے کہ کاری سے نیچے سڑک پر کنکریٹ کا کام ہورہا تھا جس کی وجہ راستہ بند تھا۔ صحافی نے نیچے جاکر راستہ کھلنے کی معلومات حاصل کرنا چاہا اس دوران دیکھا کہ سڑک پر کافی مٹی پڑی ہے اور وہ کنکریٹ والا مسالہ بھی نہایت خشک تھا۔ صحافی نے وہاں موجود مصطفے نامی منشی سے جب سوال پوچھا کہ خشک سڑک جس پر مٹی بھِی پڑی ہے اس پر کیوں مسالہ ڈالاجاتا ہے جو کہ وہ بھی خشک ہے تو مصطفے کا جواب تھا کہ تم کیا جانتے ہو۔ جب صحافی نے اس کا تصاویر اور ویڈیو بنانے لگا تو مصطفے نے اسے منع کیا۔ اس دوران صحافی نے ویڈیو بنانا شروع کیا جس پر مصطفےِ نے وہاں موجود صدیق اللہ نامی ایک مزدور جس کا بڑا بھای قیوم بھِی عمر جان کمپنی کا پی ٹی ٹھیکدار ہے اسے کہا کہ فاروقی کو قتل کرو میں ذمہ دار ہوں۔ اور صدیق اللہ نامی مزدور نے صحافی پر حملہ کرکے اسے بکسن اور مکوں سے منہ پر مارا جس کی وجہ سے وہ درد سے بے تاب ہوگیا اور اس سے موبایل بھی چھین کر توڑا۔ اسی دوران اسی مزدور نے لوہے کا راڈ اٹھا کر صحافی کے سر پر مارنے لگا کہ اچانک راستہ کھل گیا اور ضلع دیر سے تعلق رکھنے والے سینیر صحافی آکر انہوں نے اسے بچالیا۔ تاہم دیگر مزدروں نے بھِی بلچے اور لوہے کا راڈ اٹھاکر اسے دھمکی دی کہ اگر دوبارہ اس ناقص کام کی ویڈیو بنانے لگے تو ہم تمیں قتل کریں گے۔
وقاص احمد ایڈوکیٹ نے کہا کہ صحافی کے درخواست پر ان لوگوں پر مقدمہ درج ہوچکا ہے ہم اس پر بات نہِں کرنا چاہتے مگر گزشتہ روز عمر جان کے ایک پی ٹی ٹھیکدار جو معراج احمد نام ہے مروہی کا باشندہ اور عمرجان کمپنی کے مزدور اور عملہ اس کے مکان میں کرایہ دار ہیں اس نے اپنے ڈرایور، مستری اور چند لوگ اپنے ساتھ لایے جو خود کو چترال کے سول سوسایٹی کے نمایندے ظاہر کررہے تھے جس میں دو افراد افغان مہاجر لگتے تھے اور انہوں نے چترال پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہویے گل حماد فاروقی پر الٹا الزام لگاکر کہا کہ اس نے مزدوروں کو چور چور کہا ہے اور انہیں گالی گلوچ کرکے ان کی توہین کی ہے جس پر صحافی ان مزدوروں سے معافی مانگے۔ یہ نہایت افسوس ناک اور شرمناک عمل ہے کہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔ یہ سب عمرجان کمپنی کے کارندے ہیں جنہوں پہلے بھِی لوگوں کے ساتھ اسی قسم کی بد زبانی کی ہے۔
مولانا اسرار الدین الہلا نے کہا کہ میں نے جمعہ کے خطبہ میں بھِی اس بات کی مذمت کرتے ہویے اداروں سے مطالبہ کیا ہے کہ عمرجان کمپنی کو پاند کیا جایے کہ وہ معیاری کام کرے اور ان کے غنڈوں کو اس بات سے روک دے کہ عزت دار لوگوں پر ہاتھ اٹھایے۔ اگر وہ غیر معیاری کام جاری رکھے تو اس کیلیے ہم اعلےِ حکام کی دروازہ کٹکھٹایں گے۔
پریس کانفرنس کے شرکاء نے کہا کہ سی ڈی ایم ایک رضاکار تنظیم ہے جس کے تمام اراکین سڑکوں کی بہتری کیلیے محتلف فورم پر اواز اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سی ڈی ایم کے اراکین نے ایک مرتبہ این ایچ اے کے پراجیکٹ ڈایریکٹر کے دفتر جاکر اس سے شکایت کہ اس سڑک کی نگرانی کرنے والے نیسپاک کی جانب سے کنسلٹنٹ ، ریذیڈنٹ انجنیر عرفان الحق کو ایک مرتبہ بھی سڑک پر نہیں دیکھا گیا کہ وہ جاری کام کا معاینہ کرتا ہو اور کمپنی کے پی ٹی ٹھیکداران کھلم کھلا غیر معیاری اور نہایت ناقص کام کررہے ہیں جس پر پراجیکٹ ڈایریکٹر نے کہا کہ کنسلٹنٹ عرفان الحق کو اگر معاف ہی کرلو تو اچھا ہوگا کیونکہ وہ بیمار ہے اور دھوپ میں چل پھرنے کا قابل نہیں ہے جس پر سی ڈی ایم کے اراکین نے کہا کہ اگر وہ اس سڑک کے معاینہ یا چیکنگ کیلیے جانے کا قابل نہیں ہے تو اسے چاہیے کہ وہ چھٹی لے یا پنشن پر جایے تاکہ اس کی جگہہ کوی دوسرا ایماندار کنسلٹنٹ اکر کام کا معاینہ کرے کیونکہ اربوں روپے کا یہ منصوبہ ناکامی سے دوچار ہوگا۔
پریس کانفرنس کے دوران سینیر صحافی نے عمرجان کمپنی کے پراجیکٹ منیجر عرفان اللہ خٹک کا ایک ویڈیو کال بھی تمام شرکاء کو سنایا جس میں وہ کھلم کھلا اس صحافی کو مارنے اور اس کے ہاتھ پاوں توڑنے کی دھمکی دے رہا ہے جبکہ اس کے علاوہ اس نے سڑک پر کھڑے ہوکر اسے آمنے سامنے بھی قتل کی دھمکی دی ہے۔
پریس کانفرنس میں اعلے حکام سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ عمرجان کمپنی کو پابند کرے کہ اس کا مالک اکرم جان خود اے اور غیر قانونی طور پر یہ کام دوسرے ٹھیکداروں کو دیگر اسے تباہ نہ کرے اور یہ کام نہایت معیاری ہونا چاہیے جو این ایچ اے کا سفیسیفیکشین ہے اس کے مطابق کام جاری رہنا چاہہے۔ انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ اس کام کی معاینہ کرنے کیلیے کوی ایماندار کنسلٹنٹ بھیجا جایے نہ کہ عرفان لحق کی طرح ریزیڈنٹ انجنیر جو گھر بیٹھے تنخواہ لے رہا تھا اور اس نے دو ڈھای سالوں میں ایک مرتبہ بھی اس ناقص اور غیر معیاری کام کا جایزہ لینے کی زحمت نہیں کی۔ اس پریس کانفرنس میں سول سوسایٹی کے کثیر تعداد میں نمایندوں نے شرکت کی جو بعد میں مولانا اسرارالدین الہلال کے دعاییہ کلمات کے ساتھ احتتام پذیر ہوا۔