بلاول بھٹو کے ہوا میں تیر !! …….تحریر مشتاق رضوی
بلے کے الیکشن سے آؤٹ ہونے سے سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا ہے پی ٹی آئی کی طرف سے باقاعدہ پارٹی ٹکٹ جاری نہ ہونے سے پی ٹی ائی کے حمایت یافتہ امیدواران آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے
بلے کے الیکشن سے آؤٹ ہونے سے سب سے زیادہ فائدہ پیپلز پارٹی کو ہوا ہے پی ٹی آئی کی طرف سے باقاعدہ پارٹی ٹکٹ جاری نہ ہونے سے پی ٹی ائی کے حمایت یافتہ امیدواران آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں پی ٹی آئی کو لیول پلینگ فیلڈ نہ ملنے کی شکایت عام رہی اور یہی شکایت پیپلز پارٹی کی طرف سے بھی تھی لیکن الیکشن سے پی ٹی ائی کے آؤٹ ہونے سے پاکستان پیپلز پارٹی کو لیول پلینگ فیڈ مل چکی ہے اور بقول بلاول زرداری بھٹو ،وہ سارے ملک میں سب سے زیادہ انتخابی جلسے کر رہے ہیں اور یہ بھی سمجھا جا رہا ہے کہ ملک بھر میں انتخابی معرکہ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین ہوگا بلاول زرداری بھٹو کی انتخابی مہم تین سمتوں میں زور شور سے جاری ہے پہلی یہ کہ وہ اپنے 10 نکاتی انتخابی منشور کے حوالے سے ہوا میں تیر چلا رہے ہیں دوسری طرف بلاول زرداری بھٹو مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف کو مسلسل ہدف تنقید بنائے ہوئے ہیں اور ان پر طنز کے تیر چلا رہے ہیں حالانکہ بلاول زرداری بھٹو اپنے انتخابی جلسوں میں بار بار یہ اعلان کرتے ہیں کہ ‘وہ نفرت اور تقسیم کی سیاست کا خاتمہ کر دیں گے سیاستدان آپسمیں لڑتے ہیں تو دشمن قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں "اس کے علاوہ تیسری یہ کہ وہ آزاد اراکین کو ملا کر آئندہ وزیراعظم بننے کا بھی دعویٰ کر رہے ہیں بلاول بھٹو زرداری کی زور شور سے جاری سہ جہتی انتخابی مہم کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ زرداری کے دس نکاتی انتخابی منشور پیپلز پارٹی کے بنیادی منشور "روٹی ،کپڑا اور مکان ” کا مکمل احاطہ نہیں کرتا اور یہ عمران خان کے2018ء کے ابتدائی منشور کا چربہ ہے جس میں ایک کروڑ نوکریاں 50 لاکھ گھر بنانے کا وعدہ کیا گیا تھا بلاول زرداری بھٹو بھی 30 لاکھوں گھروں کی تعمیر کا وعدے کرتے ہیں ،بھوک مٹاؤ پروگرام بھی عمران خان کے لنگر خانوں جیسا ہے چراغ تلے اندھیرے کی مصداق سندھ میں خصوصاً تھرپارکر میں سرعام ناچتی بھوک اور موت کا رقص جناب زرداری کو بھی نظر نہیں آتا بھوک مٹاؤ پروگرام کے حوالے سے یہ سوال بھی اٹھایا جاتا ہے کیا بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے ملک میں خط غربت سے نیچے 10 کروڑ سے زیادہ رہنے والے غریب عوام کی خوشحالی ممکن ہے ؟ اس کے علاوہ ان کے منشور میں کرپشن مکاؤ کا کوئی ذکر نہیں حالانکہ کہا جاتا ہے کہ سندھ میں کرپشن کا دور دورہ ہے اور پیپلز پارٹی کی قیادت پر کرپشن کا الزام بھی زدعام رہا اور اومنی گروپ کا بھی بڑا چرچا رہا
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں دوگنا کا ایجنڈا قابل تعریف ہے لیکن عملی طور پر ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آتا کیونکہ ائی ایم ایف کی کڑی شرائط سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کی ہرگزاجازت نہیں دیتی کیونکہ آئی ایم ایف کے حکم پر پہلے ہی سے لاکھوں سرکاری ملازمین کی پنشن اور گریجوٹی ختم کر دی گئ اور پینشن کو مکمل ختم کرنے کا منصوبہ بھی ائی ایم ایف کی طرف سے تجویز کردہ ہے بجلی اور زراعت پر سب سڈی رعایت ختم کرا دی گئی ہے اس طرح قرضے میں جکڑے ملک اور مقروض قوم کو معاش آذادی دلانے کے بارے میں بھی کہیں ذکر نہیں ملتا ہر پاکستانی تقریباً اڑھائی لاکھ روپے اور ملک 80 ہزار ارب کا مقروض ہے ،
300 یونٹ بجلی فری دینے کا وعدہ استحکام پارٹی کا بھی ہے اس سے قبل حمزہ شہباز شریف چند دن کے وزیراعلی پنجاب بنے تو انہوں نے بھی ڈیڑھ سو یونٹ فری بجلی دینے کا اعلان بھی کیا تھا ناقدین کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کے انتخابی ایجنڈہ میں ملک کو سنگین معاشی بحران سے نکالنے کے لئے کوئی واضح عملی لائحہ عمل نہیں دیا گیا،جناب بلاول بھٹو زرداری کی خدمت میں عرض ہے کہ پی پی کے گزشتہ دور حکومت میں سندھ پر 22 ہزار ارب سے زیادہ ترقیاتی فنڈز خرچ کیے گئے لیکن پورے سندھ میں کہیں بھی کوئی ترقی اور عام کی خوشحالی نظر نہیں آتی کراچی کو’ منی پاکستان "کہا جاتا ہے کراچی کے شہری ملک کے نصف محصولات دیتے ہیں اور تقریبا چار ہزار ارب روپے سے زیادہ کراچی کے لوگ ٹیکسز ادا کرتے ہیں لیکن کراچی کا برا حال ہے مسلم لیگ ن کے مرکزی سیکرٹری جنرل احسن اقبال کا کہنا ہے کہ کیا کراچی لاہور جیسا ہے اور کراچی کی روشنیوں کو کس نے چھینا اور کراچی کو کھنڈر کسی نے بنایا؟ انہوں نے کہا کہ کون چاہے گا کہ لاہور کراچی جیسا بن جائے انہوں نے بلاول بھٹو زرداری کو چیلنج کیا کہ وہ لاڑکانہ کا ناروال سے موازنہ کر لیں
یہ سوال بہت اہم ہے کہ لاہور کے مسائل حل کرنے والے کراچی کے حالات کو سدھار نہ سکے تو ایسے حکمران "منی پاکستان” کراچی کو نہ سنبھال سکے وہ پاکستان کو کیسے چلائیں گے ؟ بلاول زرداری بھٹو تسلسل کے ساتھ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ آزاد ارکین کو اپنے ساتھ ملا کر حکومت بنائیں گے اللہ کرے وزیراعظم بننے کا ان کا خواب شرمندہ تعبیر ہو ،
بلاول بھٹو زرداری اپنی انتخابی مہم کے دوران آزاد اراکین کو ساتھ ملانے کا دعوی کرتے ہیں تو کبھی مسلم لیگ کے نظریاتی لوگوں کو تیر کو ووٹ دینے کی ترغیب دیتے ہیں اور پی ٹی آئی کی قیادت کے بارے میں تسلسل کے ساتھ اپنے غیر سگالی جذبات کا اظہار کررہے ہیں کہ ان کی حکومت آتے ہی کسی کے خلاف انتقامی کاروائی نہیں کی جائے گی اور کسی بہن بیٹی کو جیل میں نہیں ڈالا جائے گا اور کوئی سیاسی قیدی نہیں ہوگا پی ٹی آئی کے ساتھ آزاد اراکین کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پی ٹی ائی کا کوئی پارلیمانی مستقبل نہیں ہے اس لیے وہ پیپلز پارٹی کے ساتھ مل حکومت بنائیں درحقیقت بلاول بھٹو زرداری اپنے غیر سگالی بیانات سے ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے ہیں ایک طرف پنجاب کے انتخابی معرکہ کو فتح کرنا چاہتے ہیں جبکہ مسلم لیگ ن کی سندھ میں سیاسی در اندازی جناب زرداری کو بھی ہرگز ہرگز قبول نہیں اس کے علاوہ پنجاب میں پی ٹی ائی کی ہمدردیاں حاصل کر کے پیپلز پارٹی کے مردہ گھوڑے میں بھی جان ڈالنا چاہتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ بلاول بھٹوزرداری ،عمران خان کی نواز مخالفت سیاست کی پیروی کر رہے ہیں ایک طرف 90ء کی دھائی کے سیاسی جذبات کو بھڑکا رہے ہیں دوسری طرف اینٹی نواز شریف ووٹ کی ھمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں اس کے علاوہ پی ٹی آئی کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب میں پی ٹی آئی کی طرف سے چھینی گئی پیپلز پارٹی کی سیٹیں بھی دوبارہ حاصل کرنا چاہتے ہیں
بلاول بھٹو زرداری پی ٹی ائی کے کامیاب ہونے والے حمایت یافتہ اراکین کو ملا کر حکومت حاصل کرنا چاہتے ہیں جبکہ عمران خان واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی سے کبھی اتحاد نہیں کریں گے اس کے علاوہ پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ امیدواروں سے بانی پارٹی عمران خان کی وفاداری کا قرآن پر حلف بھی لیا جا رہا ہے قانونی اور آئینی طور پر ممکنہ کامیاب آزاد اراکین اسمبلی کا مستقل میں کیا سٹیٹس ہوگا؟ کیا عمران خان پی ٹی ائی کو پارلیمانی پارٹی کی حیثیت دلانے میں کامیاب ہو جائیں گے اس کے بعد ہی آزاد اراکین اپنا کردار ادا کر سکیں گے بلاول بلاول بھٹو زرداری دانستہ یا غیر دانستہ طور پر تاریخ سے صرف نظر کر رہے ہیں کہ ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو شہید ملک کے پہلے سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اور 1977ء تک سات سال پاکستان کے وزیراعظم رہے اسی طرح محترمہ بے نظیر بھٹو شہید دو بار ملک کی وزیراعظم بنیں اور بلاول کے والد محترم جناب آصف زرداری پانچ سال تک صدر مملکت رہے اور اس دوران پاکستان پیپلز پارٹی کی حکمرانی رہی اور گزشتہ چار دھائیوں سے سندھ پر پیپلز پارٹی کی حکومت رہی جبکہ بھٹو خاندان اور شریف خاندان اقتدار کی باریاں لیتے رہے گزشتہ پی ڈی ایم کی حکومت میں میاں شہباز شریف کو وزیراعظم بنایا جانا جناب آصف زرداری کی مرہون منت ہے اوراب بلاول بھٹو زرداری اقتدار کی اپنی باری لینے کے خواہشمند نظر آتے ہیں
بلاول بھٹو زرداری کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیراعظم بننے جا رہے ہیں اس حوالے سے گزشتہ 35 سالوں کے دوران میاں نواز شریف وزیر اعلی پنجاب اور تین بار وزیراعظم پاکستان رہے اب بلاول بھٹو زرداری نواز شریف کو چوتھی بار وزیراعظم بنانے کی بار بار بات کر کے ایک طرح سے میاں نواز شریف کی انتخابی مہم چلا رہے ہیں اور نادان دوست کا کردار ادا کررہے ہیں حالانکہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر راہنما چوہدری منظور احمد کا کہنا ہے کہ "یہ بھی آپشن موجود ہے کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن کے ساتھ ملکر حکومت بنائے” اس کے علاوہ مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال ،بلاول کی باتوں کو سنجیدہ نہیں لیتے کیونکہ جناب آصف زرداری پہلے ہی اپنے ایک انٹرویو میں یہ کہ چکے ہیں کہ سیاسی طور پر بلاول ابھی ناتجربہ کار ہیں اسی لئے سیاست کے میدان میں تیر اندازی کی مزید مہارت کی ضرورت ہے کیونکہ اپنے انتخابی جلسوں میں بلاول بھٹو جو "تیر”لہراتے ہیں وہ "تیر” پارٹی کا انتخابی نشان ضرور ہے لیکن اس” تیر”سے شیر کا شکار ممکن نہیں بہرحال 8 فروری کو عوام فیصلہ کریں گے کہ ملک کا آئیندہ کون حکمران ہو گا
8۔ فروری کی رات بہت اھم ہے کیونکہ 8۔ فروری کو الیکشن ہونگےاور یہ شب معراج کی رات ہے پوری قوم دعا گو ہے کہ
یااللّه !اس مقدس رات کے صدقے جو حکمران پاکستان کے لیے بہتر ہو، اسے کامیابی عطاء فرمائے آمین ثم آمین