محترم جناب !…..سید عاطف ندیم
پہلے بھی میں نے طبقاتی کشمکش کا ذکر کرتے ہوئے جہاں مظلوم اور بے بس عوام کی بات کی تھی وہیں فرعون صفت وڈیروں پہ تنقید کی تھی - عوام کے خلاف ان وڈیروں کے استحصالی ہتھکنڈوں کا ذکر کیا تھا.
عموما” میں سیاسی تبصروں سے گریز کرتا ہوں کہ دوست احباب فورا” بھڑک اٹھتے ہیں اور کئی ایک تو اپنی فصاحت و بلاغت سے اپنا خاندانی تعارف کروانے سے بھی گریز نہیں کرتے –
البتہ اس سوچ کو ابھارنے والے اصل عناصر وہ تاریخی عوامل اور حقائق ہیں جن پر کچھ روشنی اس تحریر سے ضرور پڑے گی – پہلے بھی میں نے طبقاتی کشمکش کا ذکر کرتے ہوئے جہاں مظلوم اور بے بس عوام کی بات کی تھی وہیں فرعون صفت وڈیروں پہ تنقید کی تھی – عوام کے خلاف ان وڈیروں کے استحصالی ہتھکنڈوں کا ذکر کیا تھا.
2) آج کل جنوبی پنجاب میں کون ہے جو استحصال کر رہا ہے؟ جواب سن کر تو بہت سے کرمفرما آتش زیر پا ہو جائیں گے اور پھر مجھے بھی یہ زیب نہیں دیتا کہ کسی مخصوص فرد کی دل آزاری کا باعث بنوں تاہم ایسے خانوادوں کا ذکر تو کرنا ہی پڑے گا جن کے کرتے دھرتے اس ملک سے کھلواڑ کرتے رہے ہیں – لیکن پہلے یہ سوال کہ آج ہو کیا رہا ہے؟
جناب جنوبی پنجاب کے وڈیرے زرعی زمینیں بیچ کر رئیل اسٹیٹ کی نذر کر رہے ہیں –
لیکن کیا ان زرعی زمینوں کے مالک وہ خود تھے؟
کیا یہ زمینیں جابر بادشاہوں نے انہیں اپنی خدمت کے عوض نہیں دی تھیں؟
کیا فرنگیوں نے بھی جائیدادیں انکی وفاداری کے بدلے نہیں نوازی تھیں؟
ذرا سوچئے کہ کیا ایک آدمی پیٹ بھرنے کے بعد بھی کھا سکتا ہے؟
اور اگر نہ کھا سکے تو کیا اسے بقیہ کھانا اپنے پیٹ پر باندھ لینا چاہئے؟
ظاہر ہے کسی ہوشمند آدمی کو ایسا نہیں کرنا چاہئے
تو پھر جو خود ہل چلانے کی صلاحیت سے محروم ہیں، کاشتکاری کو باعث شرم سمجھتے ہیں اور اس مٹی یا دھرتی کو عملا” مزارعوں کے ہاتھ دے دیتے ہیں انہیں خدا کی زمین پر ناجائز قبضے کرنے کا حق کس نے دیا ہے؟
حضور یہ ناجائز قبضہ ہی تھا جس نے ملتان میں ہزاروں ایکڑ زرعی زمین ہاوسنگ کالونیوں کو بیچ ڈالی – حیرت ہے کہ ملک کی 20 فیصد جی ڈی پی مہیا کرنیوالی زراعت کی جبیں داغدار کرنے والے مجرموں کو آپ کسی استحصال کا مرتکب ہی نہیں سمجھتے –
ملتان کی 21 لاکھ 55 ہزار کی آبادی کے لئے بین الاقوامی معیار کے مطابق 20 ہزار سے زائد درخت درکار ہیں جبکہ ملتان کی خاک اڑاتی زمین پر ہرے بھرے درختوں کی جگہ 2010 میں صرف 298 ہیکٹر تھی جس میں 2022 تک اضافے کی بجائے مزید 3 ہیکٹر کی کمی کردی گئی اور 9000 درخت کاٹ ڈالے گئے –
میرے محترم دوست کی نظر میں یہ قتل عام معمولی بات تھی چنانچہ فرماتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کا کونسا نواب اور جاگیردار استحصال کر رہا ہے؟
شاید کوئی بھی نہیں!
یہاں DHA ملتان کو 48000 کنال باغات تو غالبا” کرم ایجنسی سے گل خان نے آکر بیچ ڈالے ہیں – یا شاید یہ باغات زمینداروں کے نہیں کسی اللہ ڈوایا موچی کے تھے-
اس شہر کی بربادی کا ذمہ دار تو شاید گامو نائی ہے جس نے ہزاروں کنال پہ بچہ ٹاؤن بنوایا ہے جہاں ایک کنال کا پلاٹ اوسطا” دو کروڑ روپے مالیت کا ہے- اس استحصال کا ذمہ دار کمبخت عام آدمی ہے، ہائے بیچارے جاگیردار وہ غریب تو سائیکلوں پہ اپنی زمینوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں –
قبلہ اگر 2022 والی اعلان کردہ قیمتوں کے حساب سے بھی ڈی ایچ اے ملتان کے 24 سیکٹروں کی اوسط قیمت نکالیں تو فی کنال کم از کم 2 کروڑ 35 لاکھ بنتی ہے گویا جنوبی ملتان کے باغات فروش مسکین جاگیرداروں نے 1128 ارب کا سودا کر رکھا ہے
میں یہ بھی نہیں کہنا چاہتا کہ مقامی ثقافت میں زمین کو ماں کہا جاتا ہے اور ماں بیچی نہیں جاتی، نہ ہی مجھے یہ بتانا ہے کہ آموں کے باغات ذریعہ آمدن ہی نہیں ملتان کی تہذیبی علامت بھی تھے –
مجھے صرف یہ پوچھنا ہے کہ 1128 ارب کی اس خطیر رقم سے ہمارے جاگیرداروں نے کیا کیا؟
یقینا” یہ سب ملتان کی خوشحالی پہ صرف کی ہوگی – پھر تو ملتان ایشیاء کا پیرس بن چکا ہوگا، دولت گیٹ چوک تو اب Arc de Trumph کی شان دکھاتا ہوگا، قلعہ کہنہ قاسم باغ کا دمدمہ Louve musium کا نظارہ دیتا ہوگا پرانی لائبریری کی طرف اتریں تو Tuileries Garden کا منظر سامنے ہوگا، کبوتر منڈی میں کھڑے ہونے سے Sacred heart کی سرفرازی کا سماں ہوگا، گھنٹہ گھر پر Versilles کے فوارے چھوٹتے ہوں گے اور ہنو کا چھجہ تو place Vendom سے کیا کم ہوگا؟
مان لیتے ہیں اب کوئی استحصالی وڈیرہ باقی نہیں تو کیا ملتان واقعی اب پیرس کو شرماتا ہے؟
کیا کمہار منڈی میں ریلوے لائنوں کے ساتھ جھگیاں ختم ہوگئی ہیں؟
کیا لانگے خاں کے پیچھے ہندوؤں کی کچی بستی اور گجر کھڈا اب یہاں سے ہجرت کرگئے ہیں، لیکن اگر اب بھی ملتان میں زندگی اتنی ہی بے ہنگم ہے، اب بھی عورتیں اور بچے سردیوں میں حسین آگاہی کے لنڈے سے بوسیدہ کپڑے خریدنے پہ مجبور ہیں اور اب بھی گرمیوں میں لوگ اسی طرح فٹ پاتھوں پہ سوتے ہیں، اب بھی چوک بازار میں فقیر اسی طرح راہگیروں کا دامن پکڑ لیتے ہیں، اور آج بھی بہت سی مائیں بچوں کو روٹی نہیں تسلیاں دے کر سلاتی ہیں تو میں کیا کروں؟
عیاش وڈیروں اور تمن داروں کے قصیدے کہوں!
ہو سکتا ہے کچھ دوستوں کا خیال ہو کہ یہ جاگیریں تو ان وڈیروں کی اپنی ہیں تو ہم تاریخ کے دریچوں سے جھانک کر کچھ انکی حقیقت بھی دیکھ لیتے ہیں ( چونکہ پوری فلم بڑی بھیانک اور طویل ہے اسلئے فقط ٹریلر پیش خدمت ہے)
نواب بہاولپور
یہ 1739 کا ذکر ہے جب افغانستان سے نادر شاہ ہندوستان پہ حملہ آور ہوا، دہلی میں تین دن تک قتل عام ہوتا رہا، 20000 مرد وزن قتل کئے گئے اس میں ہندو مسلم کی کوئی تفریق نہیں تھی – فتح کے بعد لوٹ مار کا بازار گرم ہوا لوٹ کے مال میں کوہ نور ہیرا بھی لے جایا گیا- لوٹ کی زمینیں اپنے وفاداروں اور خوشامدیوں میں تقسیم کی گئیں چنانچہ صادق محمد خان اول کو بہاولپور کا علاقہ عطا فرمادیا گیا –
چنانچہ ریاست بہاولپور نواب صاحب کوئی اللہ کے حضور سے لیکر نہیں آئے بلکہ یہ ایک لٹیرے کی عطا کردہ تھی-
1802 میں سکھوں نے نواب صاحب کو معزول کردیا لیکن 1825 میں انہوں نے نئے لٹیروں یعنی فرنگیوں کی مدد سے یہ ریاست دوبارہ حاصل کرلی-
1838 میں جب انگریزوں نے افغانستان پر حملہ کیا تو نواب بہاولپور نے اپنے پرانے( مسلمان) محسنوں کے مقابل انگریزوں کا ساتھ دیا چنانچہ اس جنگی خدمت کے عوض 8 لاکھ روپیہ وصول فرمایا اور ایک لاکھ روپیہ سالانہ پینشن کے انعام سے سرفراز ہوئے
مزاری جاگیردار
1857 کی جنگ آزادی میں حریت پرستوں کے خلاف ایسٹ انڈیا کمپنی بہادر کی بے پایاں امداد کے صلے میں فرنگیوں نے 1859 میں جناب امام بخش خاں مزاری کو اعزازی مجسٹریٹ مقرر فرمایا، پھر 1884 میں انہیں سر کے خطاب سے نوازا گیا، چونکہ "خدمات” کچھ زیادہ ہی تھیں اسلئے گورے کے دست مہرباں کی تسلی نہیں ہو رہی تھی پس 1888میں انہیں Knighthood کا خطاب عطا فرمایا گیا
1908 میں بہرام خاں مزاری کو پنجاب کے تمنداروں کی صدارت دلوائی گئی
1913 میں انہیں کونسل آف سٹیٹ کا رکن بنا دیا گیا، پھر ضلع کے اسسٹنٹ کلکٹر کا منصب بھی دے دیا گیا
1925 میں دوست محمد خاں مزاری کو خان بہادر کا خطاب عطا ہوا اور 1929 میں انہیں اعزازی مجسٹریٹ کا عہدہ دیا گیا – انکی جاگیر کا وظیفہ بھی 35750 روپے کردیا گیا
لغاری وڈیرے
چونکہ رابرٹ سنڈیمن کی قیادت میں قلات کے بلوچوں کے خلاف انگریزوں سے ملکر لڑنے کے لئے سردار حیدر خاں لغاری بھی گئے تھے اسلئے 1875 میں فرنگیوں کی طرف سے انہیں علاقے کا مجسٹریٹ مقرر کیا گیا اور نواب کا لقب عطا فرمایا گیا-
1905 میں سردار دین محمد لغاری کو جاگیر کا مالک ٹھہرایا گیا اسکی ذمہ داری تھی کہ وہ غریب عوام اور محنت کش ہاریوں کے خون پسینے کی کمائی سے 90000 روپے سالانہ اکٹھے کرکے انگریزی خزانے میں جمع کرائے – یہ ذمہ داری چار برس تک کامیابی سے نبھانے پر انہیں اعزازی مجسٹریٹ مقرر کر دیا گیا
1946 میں جب محمد خاں لغاری نے مسلم لیگ میں قدم رنجہ فرمایا تو انہیں ایک لاکھ دس ہزار روپے وظیفہ ملتا تھا اور انکا رقبہ ایک لاکھ پندرہ ہزار ایکڑ تک پہنچ چکا تھا
کھوسہ وڈیرے
1830 میں سردار کوڑا خاں کھوسہ سکھوں کی وفاداری کا دم بھرتا تھا اور سردار رنجیت سنگھ اس وفاداری کے بدلے اسے 1000 روپے سالانہ پینشن عطا کرتا تھا –
لیکن جب گوروں نے ایڈورڈ کی قیادت میں ڈیرہ غازیخاں پہ حملہ کیا تو کوڑا خاں کھوسہ نے اپنے محسنوں سے غداری کرتے ہوئے انکے خلاف اپنے بیٹے غلام حیدر خاں کھوسہ کو انگریزوں کی مدد کے لئے بھیج دیا – چنانچہ اب فتح کے بعد فرنگیوں سے 2200 روپے پنشن وصول کرنے لگا
دریشک تمن دار
دریہن خاں دریشک جنہیں انگریزوں نے وفاداریوں کے صلے میں 1910 میں خاں بہادر کے خطاب سے نوازا تھا علاقے کی عوام سے 800 روپے ٹیکس اکٹھا کرکے انگریز آقاوں کو پہنچاتے تھے – جنگ عظیم اول میں انہوں نے اپنی "حق حلال” کمائی سے فرنگیوں کو 4000 روپے قرض بھی فراہم کیا تھا
گیلانی خانوادہ
مغل شہنشاہوں نورالدین جہانگیر اور شہاب الدین شاہ جہاں کو چونکہ مغل راج قائم رکھنے کے لئے مقامی آبادیوں کی حمایت کی ضرورت تھی اسلئے انہوں نے حضرت موسی پاک شہید کے وارثوں نواب سید یحي اور نواب موسی دین پاک کو ملتان میں گورنر مقرر کیا اور انکا وظیفہ 12500 روپے مقرر کردیا- انکی اولادیں بھی اسی طرح آنیوالے حکمرانوں سے اپنی وفاداری نبھاتی رہیں – 1857 کی جنگ آزادی میں ملک سے غداری اور ایسٹ انڈیا کمپنی سے وفاداری کے سلسلے میں انہیں وفاداری کی اسناد عطا کی گئیں اور مخدوم سید نور شاہ کو 300 روپے کی خلعت عطا کی گئی –
1876 میں سید ولائت شاہ کو گیلانی رئیس کا خطاب عطا کیا گیا
1878 میں مخدوم صدر الدین گیلانی کو وائسرائے کے لاہور دربار کی جانب سے باقاعدہ درباری تسلیم کرلیا گیا
1910 کے مشہور زمانہ دہلی دربار میں انہیں انگریزوں کے وفادار کے طور پر جارج پنجم کے سامنے پیش کیا گیا
1916 میں انہیں خاں بہادر کا خطاب اور جاگیر عطا کی گئی
جنگ عظیم دوم میں اس خانوادے نے اپنے فرنگی آقاوں کا بھرپور ساتھ دیا چنانچہ خدمات کے اعتراف کے طور پر مخدوم شیر شاہ گیلانی کو خاں بہادر کا خطاب، سونے کی گھڑی اور ایک تلوار عطا کی گئی – یہ تلوار ہنوز عوام کے گلے کاٹ رہی ہے
قریشی خانوادہ
سکھوں نے جب مسلمانوں سے حکومت چھین لی اور 1819 میں مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ملتان بھی فتح کرلیا تو اس وقت قریشی خانوادے کے سربراہ مخدوم شاہ محمود تھے- ان کی خدمات سے خوش ہوکر رنجیت سنگھ نے انھیں 3000 روپے مالیت کی جاگیر عطا کی
1848 میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی بہادر نے سکھوں کے خلاف سازشیں شروع کیں تو مخدوم صاحب احسان فراموشی کرتے ہوئے انگریزوں کے لئے مخبری کے فرائض سرانجام دینے لگے – چنانچہ ملتان پر قبضے کے بعد انگریزوں نے انہیں 1000 روپے کی جاگیر بمع ایک گاؤں کے عطا کی اسکے علاوہ انکی خدمات کے اعتراف میں 1700 روپے پنشن بھی مقرر کی گئی –
1857 کی جنگ آزادی میں قبلہ مخدوم صاحب نے حریت پسندوں کو کچلنے کے لئے انگریزوں کو 20 ہزار سوار مہیا کئے جبکہ پیادوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی –
25 سواروں کا ایک خصوصی دستہ کرنل ہملٹن کی قیادت میں آزادی پسندوں کو کچلنے کے لئے روانہ کیا-
مخدوم صاحب نے ایک فتوی بھی جاری کیا کہ جنگ آزادی میں حصہ لینا شرعا” حرام ہے –
جوابا” آٹھ کنوؤں پر مشتمل زمین اور 1800 روپے کی جاگیر حاصل کی قلعہ کہنہ قاسم باغ پر موجود مزاروں کی دیکھ بھال کے لئے بھی 3000 روپے وصول کئے-
فرنگیوں کے لئے ان شاندار خدمات کے اعتراف میں انہیں 1860 میں وائسرائے کے لاہور دربار میں عزت بخشی گئی جہاں انکے وظیفے میں 150 روپے کا مزید اضافہ کیا گیا اور لاہور میں بھنگی والا باغ بھی انہیں عطا کردیا گیا –
1880 میں افغانستان کے خلاف انگریزوں کی مدد کے عوض مخدوم بہاول بخش قریشی کو لاہور دربار میں نشست مرحمت فرمائی گئی –
1905 میں مخدوم حسن قریشی کو خاں بہادر کا خطاب عطا کیا گیا
میلسی کے تین دیہات سمیت ایک بڑی جاگیر عطا ہوئی
اس خانوادے نے انگریزوں کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک، عدم تعاون اور تحریک خلافت کی حوصلہ شکنی کے لئے فرنگی سرکار کا بھرپور ساتھ دیا اور فرنگی کے فیض سے خوب سرفراز ہوتا رہا
ممکن ہے کسی مہربان کو گمان ہو کہ میں کسی ذاتی رنجش کی بناء پر الزام لگائے جا رہا ہوں – پس میں واضح کردوں کہ جو کچھ میں جانتا ہوں اسے میں نے چھوا تک نہیں نہ ہی میں نے پاکستان بننے بعد ان وڈیروں کے کردار پہ کوئی حرف لکھا ہے حالانکہ وہ بھی بہت گھناؤنا ہے اور کچھ تاریخی حوالے بہت شرمناک ہیں سو میں نے وہ حذف کردیے ہیں البتہ اگر کوئی دوست ان حقائق کی تحقیق کرنا چاہے تو وہ مندرجہ ذیل حوالوں سے فائدہ اٹھا سکتا ہے
1) Gazetteer of Multan 1884
2) The Punjab chiefs, Lepel Griffin, 1890
3) Punjab and the war of Independence 1857, 2020
4) پاکستان کے دیہہ خدا, 1973
5) سیاست کے فرعون, 1992
اولا” اس تحریر کا مقصد صرف جنوبی پنجاب کے وڈیروں کی مذمت نہیں ہے لیکن چونکہ آپکا اعتراض انہی کے حوالے سے تھا اسلئے صرف انکا ذکر کیا گیا وگرنہ دنیا کے ہر گوشے کا fiefholder قابل مذمت ہے کہ وہ کسی دوسرے کے خون پسینے کی کمائی پہ جی رہا ہوتا ہے
ثانیة” اس سے مجھے کسی مخصوص سیاسی جماعت کی مخالفت بھی مقصود نہیں بلکہ صرف اس طبقے کی نشاندہی مطلوب ہے جو مسلسل اس ملک کے عوام کا استحصال کر رہا ہے اور اس ریاست کی نعمتوں کو عام آدمی تک پہنچنے سے روکے ہوئے ہے –
اگر آپ اس طبقے سے ہیں یا اس طبقے سے ہمدردی رکھتے ہیں تو آپ کو حق ہے کہ آپ انکا مقدمہ لڑیں اور انکے حق میں مستند حوالوں سے دلائل دیں، اگر آپکی منطق کی سچائی سر چڑھ کے بولی تو مجھے بسرو چشم قبول ہو گی-
ثالثة” اس تحریر کا سبب صرف آپکی حیرانی تھی جسکا تذکرہ آپ نے اپنی پوسٹ میں کیا تھا –
آخری بات، اگر میرے کسی بھی جملے یا لفظ سے آپکی دلازاری ہوئی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں کہ مقصد کسی کی برائی یا تحقیر نہیں بلکہ حقائق کشائی ہے، سلامت رہیں.
ہمارے ملک میں عوامی استحصال کی ایک شکل قومیت اور علاقائیت بھی ہے، یہ دراصل طبقاتی استحصال کا ہی ایک بہروپ ہے – مثلا” سرائیکی صوبے کا جھنڈا اٹھانے والے ہمارے معصوم بھائی نہیں سمجھتے کہ غریب چاہے شمالی پنجاب میں ہوں یا جنوبی پنجاب میں وہ مظلوم ہی ہیں اور جاگیردار، وڈیرے اور سرمایہ دار چاہے شمالی پنجاب میں ہوں یا جنوبی میں وہ ظالم، بدمعاش اور عوام دشمن قوت ہیں – اصل جنگ علاقوں اور قومیتوں کی نہیں طبقات کی ہے
جنوبی پنجاب کے مزاری، لغاری، کھوسے، گیلانی، قریشی تمندار بھی اتنے ہی جابر ہیں جتنے شمالی پنجاب کے ٹمن، ٹوانے، مہر، ملک اور نواب –
جس ملک میں 64 فیصد زمین پر 5 فیصد درندے قابض ہوں, جہاں 5۔30 ملین ہیکٹر زمین ملک کی 70 فیصد برآمدات کا ذریعہ ہو لیکن یہ پیدوار مہیا کرنے والے 50 فیصد محنت کشوں کے پاؤں تلے نہ اپنی زمین ہو اور نہ سر پہ اپنی چھت، جنکے ڈھور ڈنگر اور بچے ان خبیث وڈیروں کی جاگیر ہوں جنہوں نے اس ملک کی پیداوار میں ایک پائی کا اضافہ نہ کیا ہو، جن فرعونوں نے اپنے مزارعوں کے خون پسینے پہ تعمیر شدہ محلات میں رہ کر اپنے ان محسنوں کی بیٹیوں کو ہی پامال کیا ہو،
جنہوں نے ملک کی 80 فیصد زرعی زمینوں کو سمیٹ کر 47 فیصد کردیا ہو۔ جنہوں نے سبز زرعی انقلاب والی دھرتی کو اجاڑ کر اپنا سرمایہ رئیل اسٹیٹ میں جھونک دیا ہو، جو اس ملک کی بربادی اور تباہ حالی کے اصل ذمہ دار ہیں – جنہیں سیاسی جماعتیں electable اور عوام لوٹوں کا نام دیتے ہیں –
جو قبل مسیح کی ہندو سلطنتوں میں بھی بکتے تھے اور غزنوی اور غوریوں کے عہد میں بھی بکے، جو مغلوں کے بھی درباری تھے اور رنجیت سنگھ کے بھی حواری تھے – جو ایسٹ انڈیا کمپنی کے بھی کفش بردار تھے اور تاج برطانیہ کے بھی وفادار – جنکی وفائیں ہمیشہ طاقت کے ساتھ رہی ہیں اور جو ہر اسمبلی کا ناسور رہے ہیں –
بدقسمتی سے پاکستان کے بھولے عوام زرداری، نواز شریف اورعمران خاں کو ہی گالیاں دینے میں مصروف ہیں ( جو ان جرائم کا چہرہ ضرور ہیں اصل محرک نہیں) اور ان بے شرم، بکاؤ، وطن فروشوں سے انتقام لینے کے بارے میں کبھی سوچتے بھی نہیں –
ان سادہ دل دوستوں کو کون بتائے کہ
جنگ علاقوں اور قومیتوں کی نہیں طبقات کی ہے
آپ نے اصولا” درست فرمایا کہ بلوچ عوام بلوچ سرداروں کا محاسبہ کیوں نہیں کرتی؟
بلوچ بھی سرائیکیوں، سندھیوں، پنجابیوں، پشتونوں، پوٹھوہاریوں کی طرح سادہ لوح ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کسی بھی سردار کا ہم نے کیا بگاڑا ہے؟
ہم تو انہی سادہ لوح، معصوم، بھولے، بےبس عوام سے لڑے جارہے ہیں جو خود بھی اپنے قاتلوں کو نہیں پہچانتے
محبت گولیوں سے بو رہے ہو
وطن کا منہ لہو سے دھو رہے ہو
تمہیں گماں کہ رستہ کٹ رہا ہے
مجھے یقیں کہ منزل کھو رہے ہو