نوحہ گروں کا ہجوم ہے نوحے سنتا ہوا …….حیدر جاوید سید
’’ہم تیرے دوارے کھڑے ہیں، آرزوئوں کی سسکیاں ہیں اور ذاتوں کے نوحے، ہماری سن یا پھر وہ در بتلا جو تجھ سے زیادہ سخی ہو‘‘۔
خواہشوں کی مالا جپنے کا کوئی فائدہ ہے تو بتلائو، یہاں لوگ اپنی ذات سے آگے نہیں دیکھتے اور ستاروں سے آگے دیکھنے کی کوشش کرنے والوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ میرے بے خانقاہی پیر فقیر راحموں نے ساعت بھر کے لئے چار اَور غور سے دیکھا اور پھر گویا ہوا
’’یہاں جہل کو علم اور فریب کو عمل پر ترجیح دی جاتی ہے۔ سب بدلنے کی خواہش ابدی سچائی کی طرح روشن روشن ہے مگر اس کی راہ کھوٹی کرنے والے ہر قدم پر نیزے، بھالے اور شمشیریں لے کر گردنیں مارنے کو گھات لگائے ہوئے ہیں‘‘۔
بات تو درست ہے مگر وہ جو حافظ شیرازیؒ نے کہا تھا
’’ہم تیرے دوارے کھڑے ہیں، آرزوئوں کی سسکیاں ہیں اور ذاتوں کے نوحے، ہماری سن یا پھر وہ در بتلا جو تجھ سے زیادہ سخی ہو‘‘۔
فقیر راحموں نے مسکراتے ہوئے کہا شاہ!
’’تم کتابی کیڑے ہو فقط کتابی کیڑے، ارے بابا عمل کی دنیا کتابوں سے یکسر مختلف ہے اسی لئے تو سمجھاتا رہتا ہوں۔ دنیا کو اپنی آنکھ سے دیکھو گے تو ٹھوکر نہیں کھائو گے۔ کتابیں جھوٹ نہیں بولتیں۔ میں کتاب دشمن نہیں ہوں لیکن مطالعے کو مشاہدے اور تجربے کی آنچ دو، آنکھیں بند کرکے دریا میں کودنا خودکشی ہے، دوست اسی لئے ہوتے ہیں کہ ان سے مشورہ کیا جائے‘‘۔
اس سے مجھے انکار نہیں۔ ’’میں تو ویسے بھی غلامِ شیرِ یزداں ہوں۔ کیا خوب کہا مولائے کائنات سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ الکریم نے ’’خوش قسمت اور امیر شخص ہے وہ جس کے مشورہ دینے والے دوست موجود ہوں‘‘۔
اچھا تو پھر اندھے کنویں میں چھلانگ لگانے کی ضرورت کیا تھی؟ فقیر راحموں نے دریافت کیا۔ آدمی کو انا چین نہیں لینے دیتی؟ مسکراتے ہوئے اس نے کہا ’’انا کے خول میں بند رہنا سرطان سے بھی خطرناک بیمار ہے، اس لاعلاج بیماری نے دیمک کی طرح سینکڑوں اقوام کو چاٹ لیا، تم تو کسی شمار میں ہی نہیں‘‘۔ مجھے شیخ سعدیؒ یاد آنے لگے، کہا
’’میرے کریم اور بخشنے والے کون ہے جو تیرے سوا اس عاجزودرماندہ کا۔ یہ ساری افتادیں جو آن پڑی ہیں ٹل سکتی ہے اگر تو چاہے۔ میں تیرے در کو چھوڑ کر کس کے دروازے پر سوال کروں، غریب و عاجز ہوں یہیں پڑا رہوں گا‘‘۔
ایک کے بعد ایک یاد نے دستک دی۔ حسین بن منصور حلاجؒ یاد آئے، کہا
’’وہ میرے قتل کے درپے ہیں، ہوتے رہیں، زندگی دینے والے نے موت کا فیصلہ اپنے پاس رکھا، یہی منصور کی زندگی ہے‘‘۔
آدمی کے فیصلے اس کے جذبات سے عبارت ہوتے ہیں اسی لئے اکثر گھاٹے میں رہتا ہے۔ میں خود اس کے حضور ہوں جس نے کہا تھا ’’لمحے اپنی سزا خود سناتے ہیں، خطائیں درگزر کرنے والے زندگی کے مشکل راستوں پر استقامت سے چل پاتے ہیں۔
وہی فقیر راحموں ہے اور کون۔ آج تو کمبل ہوا جارہا ہے۔ لگتا ہے سارافلسفہ گھوٹ کر پلائے گا‘‘۔ کچھ ساعت قبل کہہ رہا تھا ’’ہم تو زندگی کی راہ پر بھاگتے لوگوں میں سے ہیں سرابوں کے تعاقب میں منہ اٹھائے بھاگتے لوگوں میں سے‘‘۔
اسے یاد دلایا کہ شاہ لطیفؒ تو کہہ چکے، زندگی کے راستے پر اطمینان سے قدم قدم فرزانے چلتے ہیں سرمدی نغمہ الاپنے والے فرزانے۔
مجھے شاہ کے کہے سے انکار کہاں۔ ہم تو سر نیہواڑے اس کے حضور حاضر ہوتے ہیں۔ اسی نے تو کہا تھا
’’یہاں پیاس پر قابو رکھنا اصل بہادری ہے‘‘۔ فرات کنارے اترے محبوبانِ خدا کے قافلے نے جبروستم، گھپ گھور اندھیرے، جسموں کو کاٹتی تلواروں اور حلق میں کانٹے کی طرح چبھتی پیاس کو شکست دی تھی۔
فقیر راحموں گویا ہوا
’’فرات کنارے اترنے والے محبوبانِ خدا کے قافلہ سالار سا بہادر زمانوں کی آنکھ سے پہلے دیکھا نہ قیامت تک دیکھ پائیں گے‘‘۔ سچ یہی ہے ظلم کو نہیں موت کو شکست دینا ہی اصل بہادری ہے لیکن سچ ہضم کہاں ہوتا ہے، کتنے لوگ ہیں جو سن پاتے ہیں، جھوٹ کی نائو چلتی ہے یہاں۔
’’یہاں خالص کیا ہے؟ ایمان تک میں تو ملاوٹ ہے۔ قسموں کا ورق چڑھاکر فروخت ہوتا ہے ایمان یہاں‘‘۔
آدمی کس سے سوال کرے ماسوائے اس کے راز ہائے درون سینہ سے واقف نصف صدی کے دوست کے۔
مجھے مرشدِ کریم بلھے شاہؒ یاد آئے۔ اپنی ذات کے اکلاپے کو مارتے ہوئے زندگی بیتانے والے نور کے تڑکے میں ایک دن کہہ اٹھے ’’بس تیری رضا کی طلب تھی اسی لئے مارے مارے پھرتے رہے، کبھی دنیا میں اور کبھی تیرے دوارے ‘‘۔ اپنی زندگی اور دوسروں کی جیب پر زندہ رہنے کی بیماری میں مبتلائوں کو بلھے شاہؒ کہاں بھاتا ہے۔
یہ راہ ہی ایسی۔ اس کے دوارے جانے والی راہ۔ حقیقتوں کو مگر کون سمجھنا چاہتا ہے ورنہ مرشد نے تو کہہ دیا تھا اذان روح میں اترنی چاہیے کان نہ پھاڑے ۔
بات سمجھ لینی چاہیے تھی پر وہ تو اس وقت بھی نہ سمجھے جب سرمدؒ نے کہا تھا ’’اذان میں روح بلالی تو رہی نہیں یہ تو روٹی کی طلب سے بندھی ہے‘‘۔
ایک کڑوا سچ یہ ہے کہ ہم روٹی سے بندھے ہی جی رہے ہیں حالانکہ ہر کس و ناکس اس حقیقت سے آگاہ ہے کہ پیٹ سے بندھے جینا جانوروں کو زیبا ہے انسان تو آگہی کے لئے جیتا ہے۔ یہاں تلسی داس کی بات کس نے پلے باندھی کہ ’’چار نوالوں سے جیا جاسکتا ہو تو پوری روٹی ٹھونسنا جہالت بھی ہے اور ظلم بھی‘‘۔
کیا خوب فرمایا حضرت سید ابوالحسن امام علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کریم نے ’’بھوک رکھ کر کھانے والے غوروفکر کرتے ہیں، بھرا پیٹ سوچنے کب دیتا ہے‘‘۔
چلئے آگے بڑھتے ہیں۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے سلگتے ہوئے عصری مسائل سے آنکھیں چراکر یہ سب لکھنے کی وجہ کیا ہے۔
لیکن یہ بھی سوچئے کہ آدمی کیا لکھے مذاق رات تماشے پر، گلے کاٹے جانے اور اس انسان کشی کا جواز پیش کرنے والے بونوں پر۔ فقیر راحموں کی تلخ و ترش باتیں اور "مذاق رات” تماشے مجھے کتابوں میں پناہ لینے پر مجبور کرتے ہیں۔ اور کیا بھی کیا جاسکتا ہے بالخصوص ان حالات میں جب ناتمامی کے عذاب سے دوچار بونوں کا ہجوم چار اور دھول اڑاتا پھرتا ہو۔
عقل کے ان اندھوں کو اپنا کج دکھائی نہیں دیتا۔ چلے ہیں زمانے کو اپنی لاٹھی سے ہانکنے۔ ہم ایسوں کے لئے تو حرم و میخانہ کا ماحول اب ایک سا ہوگیا ہے۔ ایک جگہ سے فتوئوں کی ژالہ باری نے بھگایا تو دوسری جگہ سے شیخ کے وعظ نے۔
کیا خوب کہا تھا حافظ شیرازیؒ نے
’’تلچھٹ ہی تلچھٹ ہے اس سے زیادہ کیا ہے، میخانہ ہمارا بوجھ اٹھاتا ہے ہم پیمانوں کا‘‘۔
انسان کٹ رہے ہیں گاجر و مولی کی طرح اور قصائیوں کے حق میں دلائل کی عمارت سے اٹھانے والے رتی برابر شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ مسخروں کی بن آئی ہے۔ سیاست، صحافت، ادب، دینداری، دین داری، دانش اور سماج سدھاری کے شعبوں میں ساون کے اندھوں کی طرح جی رہے ہیں۔ اختلاف رائے کو کفر کا درجہ دیا گیا ہے۔ عجیب صورتحال ہے۔
عمر خیام یاد آرہے ہیں۔ کہا
’’یار فلک ناز کی فرمائش پوری کرتے کرتے ہم نے سارا میخانہ لٹادیا‘ یہ راز تو بہت بعد میں کھلا کہ پارسا ہمارے حساب کے بندی کھاتے بڑھاتے رہے‘‘۔
حالات کوئی بھید کا صندق ہرگز نہیں۔ شاہ حسینؒ نے کہا تھا ’’ملے تو اصل فقط ساعت بھر میں ورنہ قبر تک کھوجتے رہو۔ اسے کہہ دو ہم بھید کا صندوق کھول دیتے مگر بوجھ اٹھانے والا نہیں ملا‘‘۔
ذانواس نے کہا تھا ’’زندگی اپنے ہونے کا ثبوت مانگتی ہے ‘‘۔
قربان جایئے حضرت شاہ شمس تبریزؒ پر کیا خوب کہا
’’زندگی کے پیچھے بھاگنے کا فائدہ، ادھار میں ملے سانسوں کا نفع کیا اور نقصان کیا‘‘۔
تلسی داس نے کہا تھا ’’خواہشوں کے قبرستان سے رزق پانے والے اپنے زمانے کو خواہشوں کی نئی سمادھی کے سوا کچھ نہیں دے پاتے‘‘۔
پچھلی شب فقیر راحموں سمجھارہے تھے ’’ہمارا دامن خالی ہے، زندگی اس سے بھی زیادہ قبر کی مٹی کا رزق گوشت اور ہڈیاں، خواہشیں کوڑے بن کر برسیں گی، ہم تو نفس کے سرکش گھوڑے سے شوق کے ساتھ خود کو روندوارہے ہیں‘‘۔
کبھی کبھی ایسا لگتا ہے ہم اپنے زمانے سے بچھڑ گئے ہیں۔ زندگی سوال ہے یا بوجھ؟ جب کبھی یہ سوال ستانے لگتا ہے تو حضرت سچل سرمستؒ سے رجوع کرتا ہوں۔
کسی نے ان سے دریافت کیا تھا ’’حضرت زندگی کیا ہے‘‘ سچل سرمست نے مٹھی میں خاک بھری اور ہوا کے دوش پر رکھتے ہوئے کہا یہ ہے زندگی۔
سمجھ میں نہیں آتا ہم کیسے جی رہے ہیں زندگی کے تپتے صحرا میں، کوئی شجرسایہ دار بھی تو نہیں۔ اب تو کوئی امرتا پریتم ہی ہمارے عہد کا نوحہ لکھے گی مگر سوال یہ ہے کہ ہمیں نوحے ہی کیوں بھاتے ہیں؟
فقیر راحموں نے چپکے سے کان میں کہا ’’عادتیں اگلی نسلوں کو ورثے میں ملتی ہیں‘‘۔ خیر جانے دیجئے ہم حافظ شیرازیؒ کو یاد کرتے ہیں
’’کوئی راہ ایسی نہیں جس پر چلنا مشکل ہو سوائے اندر سے دکھائی جانے والی راہ کے اور اس پر چلنے والا ایک قدم حرم کی طرف اٹھاتا ہے تو دوسرا میخانہ کی سمت‘‘۔
مجھے ان دوستوں پر ترس آتا ہے جو کاٹھ کے الوئوں کو نجات دہندہ اور قاتلوں کو مسیحا ثابت کرنے میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ ہوا کے دوش پر زندہ رہنے والے لفظ کہاں ہیں۔ یہاں تو زندگی کی محبت میں خود سے بچھڑنے والے اس (زندگی) کی دہلیز پر اوندھے منہ پڑے ہیں۔
کیا مُردوں کے حقوق ہوتے ہیں؟ نجانے پچھلے چند دنوں سے یہ سوال چین کیوں نہیں لینے دے رہا۔ قیادت و سیادت پر حق فائق جتانے والوں کو کون سمجھائے کہ انسانی سماج کی سلامتی علم، محبت، امن اور رواداری میں ہے۔ جہل، تشدد اور خودپسندی بربادیوں کے سوا کچھ نہیں دیتے۔
تاریخ کے اوراق الٹ کر دیکھ لیجئے۔ کاش ہم سمجھ پاتے کہ ’’فنا کے گھاٹ پر اترنے میں وقت پڑا ہے کی غلط فہمی نے آدمی کو کہیں کا نہیں رکھا‘‘۔
ہم کب تک فریب کھاتے اور فریب دیتے رہیں گے۔ ہم ایسے عہد میں جی رہے ہیں جس میں شہرت کی بھوک کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ایک دوسرے کو فریب دیتے لوگوں کو اب سچ ہضم نہیں ہوتا۔
کہنے کو ہم 25 کروڑ زندہ لوگ ہیں مگر سچ یہ ہے کہ خواہشوں کے قبرستان میں جیتے ہیں اور ہمارے دلوں میں آرزوئوں کی خانقاہیں ہیں۔ اس بوجھل کالم پر سو بار معذرت لیکن میں اس سے سوا کیا لکھوں آپ ہی بتلادیجئے۔