سینیٹ، قومی اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی میں نمائندگی رکھنے والی بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی آصف علی زرداری اور محمود خان اچکزئی کی حمایت کے معاملے پر تذبذب اور تقسیم کا شکار رہی۔
یہ ملک کی وہ واحد جماعت تھی جس کے کچھ ارکان نے آصف علی زرداری اور کچھ نے محمود خان اچکزئی کی حمایت کی۔
سنیچر کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ سمیت بلوچستان اسمبلی میں نیشنل پارٹی کے چار ارکان اور قومی اسمبلی میں اکلوتے رکن پھلین بلوچ نے آصف علی زرداری کی حمایت کی، جبکہ اسی جماعت کے دو سینیٹرز کہدہ اکرم دشتی اور طاہر بزنجو نے سنی اتحاد کونسل کے حمایت یافتہ امیدوار اور پشتونخوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی حمایت کی۔
نیشنل پارٹی کے سینیٹر کہدہ اکرم دشتی نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے اور سینیٹر طاہر بزنجو نے محمود خان اچکزئی کی حمایت کی اور انہیں ووٹ دیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پارٹی نے چند دن پہلے اپوزیشن میں بیٹھنے اور محمود خان اچکزئی کی حمایت کا فیصلہ کیا تھا، معلوم نہیں کہ آخری وقت میں کیا ہوا کہ پارٹی کے کچھ لوگوں نے آصف زرداری کی حمایت کا اعلان کر دیا۔
اکرم دشتی نے کہا کہ ’ہم نے اپنا ووٹ پارٹی کے پہلے فیصلے کے مطابق کاسٹ کیا۔ جس نے زرداری اور پیپلز پارٹی کی حمایت کی، ان سے پوچھا جائے۔‘
محمود خان اچکزئی کے صاحبزادے ازل خان کے مطابق محمود خان اچکزئی کی جانب سے انتخابات سے ایک روز قبل جمعے کی شب کو اسلام آباد میں تحریک انصاف، سنی اتحاد کونسل اور دیگر اتحادیوں کے پارلیمنٹرینز کے اعزاز میں دیے گئے عشائیے میں نیشنل پارٹی کے دونوں سینیٹرز نے شرکت کی اور حمایت کا یقین دلایا۔
محمود خان اچکزئی نے اسلام آباد میں صدارتی انتخاب کے نتائج کے بعد بھی اس بات کی تصدیق کی اور کہا کہ کچھ جمہوری لوگوں نے ان کا ساتھ دیا۔ ان میں نیشنل پارٹی کے دو سینیٹرز بھی تھے، انہوں نے ووٹ دکھانے تک کا کہا لیکن میں نے کہا کہ آپ پراعتماد ہے۔
محمود خان اچکزئی نے بلوچستان اسمبلی سے ایک بھی ووٹ نہ ملنے پر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ ’ڈاکٹر مالک رات تک تو کہہ رہے تھے کہ سنی اتحاد کونسل کو ووٹ دیں گے۔ پتہ نہیں وہ کیلے پر پھسل گئے یا غریب کے ساتھ کیا ہوا۔‘
نیشنل پارٹی کے واحد رکن قومی اسمبلی پھلین بلوچ نے کہا کہ انہوں نے پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی پیروی کرتے ہوئے آصف زرداری کی حمایت کی۔
وائس آف جرمنی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایک روز پہلے پارٹی نے صدارتی انتخاب میں پیپلز پارٹی کی حمایت کا فیصلہ کرتے ہوئے ہمیں مطلع کیا، اس سے پہلے کسی امیدوار کی حمایت کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔‘
نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے صدارتی انتخابات کے لیے ووٹ ڈالنے سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا ہے تاہم آٹھ نکاتی ایجنڈے پر صدارتی انتخاب میں پیپلز پارٹی کی حمایت کا فیصلہ کیا ہے۔
نیشنل پارٹی کے سیکریٹری جنرل جان بلیدی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان کے مطابق ان میں بلوچستان میں مفاہمی عمل کو فروغ دے کر لاپتہ افراد کی بازیابی کو یقینی بنانا، 18 ویں آئینی ترمیم پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد، این ایف سی ایوارڈ کی منصفانہ تقسیم، گوادر پورٹ کی آمدنی سے بلوچستان کو حصہ اور ملازمتیں دینے کے لیے قانون سازی، قومی شاہراہوں کی حالت بہتر بنانے، وفاقی ملازمتوں میں بلوچستان کے کوٹے پر عمل درآمد، طلبا کے لیے سکالر شپ اور زیرِزمین پانی کے ذخائر کو محفوظ بنانے کے لیے ڈیمز کی تعمیر کے مطالبات شامل ہیں جس پر پیپلز پارٹی اتفاق کیا ۔
نیشنل پارٹی کے ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا کہ نیشنل پارٹی نے 29 فروری کو پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے اجلاس میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا تھا۔
’اس فیصلے کے بعد نیشنل پارٹی کے دونوں سینیٹرز نے محمود خان اچکزئی کو اپنی حمایت کا یقین دلا دیا تھا تاہم چند دنوں بعد نیشنل پارٹی نے پیپلز پارٹی کی جانب سے مسلسل رابطوں اور پارٹی کے کچھ نومنتخب اراکین کی لابنگ کے نتیجے میں سینٹرل کمیٹی کے ارکان کی اکثریت کے ساتھ رائے تبدیل کرتے ہوئے آصف زرداری کی حمایت کا فیصلہ کیا۔‘
ذرائع کا کہنا تھا کہ ’جب پارٹی کے سینیٹرز کو نئے فیصلے سے متعلق آگاہ کیا گیا تو انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ پہلے ہی محمود خان اچکزئی کے ساتھ وعدہ کر چکے ہیں، اب اپنی زبان سے مکر نہیں سکتے۔‘
’نیشنل پارٹی کے پنجگور اور آواران سے نومنتخب ارکان رحمت صالح بلوچ اور خیر جان بلوچ نے اس بات پر زور دیا کہ حکومت کا ساتھ دے کر بدلے میں حلقے اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے فنڈز اور ترقیاتی منصوبے لیے جائیں۔ ان کا مؤقف تھا کہ اپوزیشن میں بیٹھ کر نہ وہ اپنے ووٹرز اور حلقے کے کام آ سکتے ہیں اور نہ ہی انتخابات میں دوبارہ کامیابی حاصل کر سکیں گے۔‘
نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل جان بلیدی سے پارٹی کی تقسیم سے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے اس پر تبصرہ نہیں کیا۔
نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے انتخابات کے فوری بعد نتائج کے خلاف احتجاج کیا اور احتجاجی تحریک چلانے کے لیے چار جماعتی اتحاد بھی قائم کیا تھا۔
بلوچستان کے سینیئر صحافی عبدالخالق رند کا کہنا ہے کہ نیشنل پارٹی کا فیصلہ غیرمتوقع تھا چونکہ محمود خان اچکزئی سے ان کی ہم آہنگی رہی ہے تو انہیں توقع تھی کہ کم از کم نیشنل پارٹی ان کی حمایت کرے گی۔ اس کا اظہار محمود خان اچکزئی نے میڈیا کے نمائندوں سے اپنی گفتگو میں بھی کیا۔
نیشنل پارٹی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی رشید بلوچ کا کہنا ہے کہ نیشنل پارٹی نے بلوچستان اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی حمایت کی اور سینٹ میں محمود خان اچکزئی کی۔ یہ قیادت اور پارٹی کے اندر ’کنفیوژن‘ کی نشاندہی کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’نیشنل پارٹی کے فیصلے سے یہی ظاہر ہوا ہے کہ نومنتخب اراکین پارٹی کے فیصلے پر حاوی ہوئے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ حکومت ناراض ہو۔ آواران سے خیر جان بلوچ پہلی دفعہ سابق وزیراعلٰی عبدالقدوس بزنجو کو شکست دے کر آئے ہیں، وہ اور رحمت بلوچ سمجھتے ہیں کہ اپوزیشن میں بیٹھ کر نقصان ہو گا۔‘
’انہوں نے پارٹی کی مرکزی کمیٹی کے لوگوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ آصف زرداری کو ووٹ دے کر مستقبل میں ان سے بلوچستان میں ضرورت پڑنے پر کام لیا جا سکتا ہے یا صوبائی حکومت کو کوئی سفارش کروائی جا سکتی ہے۔‘
رشید بلوچ کے مطابق یقیناً اس فیصلے سے نیشنل پارٹی کی سیاسی ساکھ پر سوالات اٹھے ہیں۔ وہ جے یو آئی کی طرح غیرجانبدار رہ سکتی تھی۔ اب یہ سمجھا جا رہا ہے کہ نیشنل پارٹی نے نظریے اور بیانیے کی بجائے حلقوں کی سیاست اور مفادات کو ترجیح دی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نیشنل پارٹی نے انتخابات کے بعد بلوچستان نیشنل پارٹی اور پشتونخوا میپ کے ساتھ مل کر چار جماعتی اتحاد بنایا اور یہ بیانیہ بنایا کہ ’انتخابات میں دھاندلی کر کے ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی اور باقی جماعتوں کے امیدواروں کو جتوایا گیا۔ اب انہوں نے اپنے بیانیے کا خود قتل کیا ہے۔‘