سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کی جانب سے عدلیہ میں مداخلت کے خط پر تشکیل دیے کمیشن کی سربراہی سے معذرت کر لی ہے۔
پیر کو وزریراعظم شہباز شریف کے نام خط میں سابق چیف جسٹس نے لکھا کہ ’30 مارچ کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں مجھے اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججز کی جانب سے خط میں لگائے گئے الزامات پر کمیشن کا سربراہ مقرر کیا گیا۔‘
انہوں نے لکھا کہ ’کمیشن کی سربراہی کے لیے مجھ پر جو اعتماد کیا گیا جس کے لیے شکرگزار ہوں۔‘
جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی نے خط میں لکھا کہ ’میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی اور سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج جسٹس منصور علی شاہ کا بھی شکرگزار ہوں جنہوں نے مجھ پر اعتماد کیا۔‘
وزیراعظم کو لکھے گئے خط میں جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی نے کہا کہ انہوں نے ہائیکورٹ کے چھ ججز کا خط پڑھا ہے اور وفاقی کابینہ کی جانب سے تحقیقاتی کمیشن کے لیے بنائے گئے شرائط کار یا ٹرمز آف ریفرنسز کو بھی دیکھا لیا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ ’چھ ججز کے خط میں آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی شکایات کے فورم سپریم جوڈیشل کونسل کو مخاطب کیا گیا اور اسی طرح اُس فورم کے چیئرمین چیف جسٹس آف پاکستان کے نام ہے۔‘
سابق چیف جسٹس کے مطابق ’یہ عدالتی طریقہ کار کے منافی ہوگا کہ میں ایسے معاملے کی تفتیش کروں جو آئین کے تحت قائم فورم سپریم جوڈیشل کونسل یا خود سپریم کورٹ کے دائرہ کار میں آتا ہو۔‘
انہوں نے لکھا ہے کہ ’میری یہ بھی رائے ہے کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے کمیشن کے شرائط کار اُس کے مطابق نہیں جو چھ ججز کے خط میں لکھا گیا ہے۔‘
جیسا کہ ججز نے لکھا ’ہم سپریم جوڈیشل کونسل سے اس پر رہنمائی چاہتے ہیں جو ججز کی ڈیوٹی میں ہے کہ جب اُن کو انتظامیہ جن میں اںٹیلیجنس ایجنسیاں بھی شامل ہیں، رابطہ کریں تو اس کو کونسل کو رپورٹ کیا جائے۔‘
جسٹس ریٹائرڈ تصدق جیلانی کے خط کے مطابق ’چھ ججز نے خط کے آخر میں ’ادارہ جاتی مشاورت‘ کے لیے میکنزم کی درخواست بھی کی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہرچند کہ یہ خط مکمل طور پر آئین کے آرٹیکل 209 کے دائرہ کار میں نہیں، لیکن چیف جسٹس اس فورم کے چیئرمین ہیں تو اُن کو اختیار ہے کہ وہ خط میں سامنے لائے گئے معاملے کو ادارہ جاتی طور پر دیکھ سکتے ہیں۔‘
خط کے آخر میں سابق چیف جسٹس نے لکھا کہ مذکورہ بالا وجوہات کی بنا پر وہ اس کمیشن کی سربراہی اور انکوائری کو بڑھانے سے خود کو الگ کرتے ہیں۔