تلاش گمشدہ ۔ بھٹو کی پیپلز پارٹی ….. حیدر جاوید سید
’’محسن کشی کی اس سے بری مثال شاید ہی ملے۔ خلیفہ کے محل میں پردوں کے پیچھے چھپے کرائے کے قاتلوں نے اس شخص کو موت کا رزق بنادیا جس نے عباسی خلافت کی عمارت اٹھائی تھی
وہ 4 اپریل کی ہی صبح تھی جب مجھے ولید بن عتبہ بن مجیع یاد آرہے تھے عربی زبان کے اس قادرالکلام شاعر نے ابو مسلم خراسانی کا مرثیہ لکھا تھا۔ ابو مسلم خراسانی جس نے بنو امیہ کے اقتدار خلاف ایک منظم تحریک چلائی نتیجتاً بنو عباس برسراقتدار آئے۔
پھر ایک دن خلافت عباسیہ نے اپنے اس محسن کی گردن ماردی۔ محسن کشی سے عبارت انسانی تاریخ میں ایک اور سانحہ کااضافہ ہوگیا۔ مورخین نے لکھا
’’ابو مسلم خراسانی کے سفاکانہ قتل کی خبر بصرہ پہنچی تو ولید بن عتبہ بن مجیع نے کہا
’’محسن کشی کی اس سے بری مثال شاید ہی ملے۔ خلیفہ کے محل میں پردوں کے پیچھے چھپے کرائے کے قاتلوں نے اس شخص کو موت کا رزق بنادیا جس نے عباسی خلافت کی عمارت اٹھائی تھی۔ وائے ہو ان پر جو احسان بھول گئے۔ ٹوٹ گریں زندگی کی شاہراہ پر وہ جنہوں نے ایک شہہ سوار پر چھپ کر وار کیا۔
کیسا زمانہ آگیا ہے لوگ محسنوں کے خون سے پیاس بجھاتے ہیں۔ مجھے لگ رہا ہے عباسی خلافت کو فاتحہ خواں بھی نصیب نہیں ہوں گے۔ ہائے ہائے وہ نہ رہا جو لوگوں کے دلوں پر راج کرتا تھا اور اس کے مخالفوں کے قدموں کے نیچے سے زمین کھسکتی رہتی تھی۔
عرب ایسے محسن کش تو کبھی نہ تھے۔ عربوں کے چہروں پر سیاہی ملنے والو!حساب کے دن کیا جواب دے گا؟‘‘
ولید بن عتبہ کا مرثیہ ابو مسلم خراسانی کے لئے تھا لیکن اس نے دستک شہید ذوالفقار علی بھٹو کی برسی والے دن کی صبح دی۔ بھٹو نے ایک ہارے ہوئے لشکر اور دولخت ہوئے ملک کو اپنے قدموں پر کھڑا کیا۔ ملک کو دستور دیا۔ ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی ( درست یا غلط کی بحث الگ ہے ) مگر ہر دو سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے اس ملک کے کچلے ہوئے طبقات میں زندگی کی روح پھونکی۔
ان کی ذات اور طرز حکمرانی سے اختلاف کرنے والوں کےپاس بھی دلائل کا انبار ہے۔ میرے ایک صاحب مطالعہ دوست بھٹو صاحب کے حوالے سے لکھی گئی کسی حوالہ جاتی تحریر یا کالم پر اپنی فکر کی چاند ماری کا ثواب اکثر کماتے ہیں۔ یہ طعنہ بھی دینے سے نہیں چوکتے کہ ’’آپ کی نسل کے محبوب رہنما نے تعلیمی اور صنعتی و مالیاتی اداروں کو قومیانے کی پالیسی پر عمل کرکے ابتری کو کھل کھیلنے کی دعوت دی‘‘ ان کا یہ موقف جی ایچ کیو اور جماعت اسلامی کے میلاپ کا نتیجہ ہے ۔ میرا خیال ہے ہمیں بھٹو صاحب کو انسان ہی سمجھنا چاہیے۔
گوشت پوست کا انسان وہ آسمانی اوتار تھے نہ مادرزاد ولی و صوفی نہ ہی انہوں نے کبھی دعویٰ کیا کہ خدا نے مجھے پیغمبروں کی طرح تیار کیا ہے "۔ یقیناً ان سے غلطیاں بھی سرزد ہوئیں لیکن ان کی خوبیوں کا پلڑا بھاری ہے اور پھر ضیاء الحق کے عہد ستم میں شان کے ساتھ پھانسی پر چڑھ کر انہوں نے تاریخ میں خود کو امر کرلیا۔
بلاشبہ بھٹو چاہتے تو قائداعظم محمدعلی جناحؒ کی 11 اگست 1947ء والی تقریر کو 1973ء کے آئین کا سرنامہ قرار دے سکتے تھے۔ بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا بلکہ ان جیسے لبرل اور ترقی پسند رہنما نے ریاست کو مشرف بہ اسلام کیا اور پھر اسلام پسندوں اور اہلِ کتاب کے اتحاد کے ہاتھوں پھانسی پر چڑھ گئے۔
مذہب کا اونٹ 1973ء کے دستور کی طاقت سے سیاست کے خیمہ میں داخل نہ ہوا ہوتا تو ان بہت ساری بدعتوں کا رونا نہ رونا پڑتا جن کی وجہ سے ایک ترقی پسند لبرل اور قومی جمہوریت کے شعور سے مالامال سماج کی تعمیر کے راستے میں رکاوٹیں پیدا ہوئیں۔
طاقت کا سرچشمہ عوام کو قرار دینے والے رہنما نے سماج کے بالادستوں اور کٹھ ملائوں کے سامنے سپر ڈال دی۔ امریکی ان کے خون کے پیاسے تھے اور جیسے ہی امریکیوں کو جنرل ضیاء الحق کی شکل میں وفادار ملا وہ باقی کی کٹھ پتلیوں کو میدان میں لے آئے۔
تیسری دنیا کے محکوم زمین زادوں کی آواز بننے والے بھٹو کی ذات اور سیاست کا جادو آج بھی سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ان کی جماعت ان کی صاحبزادی سے ہوتی ہوئی اب داماد کے "قبضہ قدرت” میں ہے البتہ پیپلزپارٹی کی سامراج دشمن سیاست ماضی کا قصہ ہوئی۔
اس بحث اور سوال کو یہیں چھوڑ دیتے ہیں نظریات اب خاصے کی چیز ہوئے اکیسویں صدی کی تیسری دہائی کے چوتھے سال تک آتے آتے بہت کچھ تبدیل ہوگیا ہے۔ پاکستان کی سیاسی،مذہبی، فرقہ وارانہ اور قوم پرست جماعتیں خاندانی اورطبقاتی کمپنیاں بن کر رہ گئی ہیں۔ ’’بت ہیں ہر جماعت کی آستنیوں میں‘‘۔ کب آئے گا حکم اذاں؟ فی الوقت تو اس کی خبر نہیں۔ نہ ہی طوفان سے پہلے والی خامشی ہے۔
بھٹو صاحب کی پارٹی اور اس کی موجودہ قیادت پاکستانی سیاست کے بدلتے ہوئے تقاضوں کا ادراک کرنے کی بجائے آج بھی وفاق پرست سیاست کا پرچم سنبھالے ہوئے ہے۔ 18ویں ترمیم کے ذریعہ پی پی پی نے اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کی جو راہ ہموار کی یہ خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگااس بارے کچھ کہنا اس لئے ممکن نہیں کہ 18ویں ترمیم کی ارتھی اٹھانے اور تدفین کرنے والے ہی دکھائی نہیں د یتے جبکہ فیصلہ سازی کااختیار اب بھی ’’مقتدرۂ‘‘ کے پاس ہے۔
خوبیوں خامیوں کی بحث اپنی جگہ یہ امر مسلمہ ہے کہ بھٹو بیسویں صدی کے چند بڑے رہنمائوں میں سے تھے۔ ان کی ذات اور طرز حکمرانی پر بحث اٹھانے والوں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ یہ بھٹو ہی تھے جنہوں نے دولخت ہوئے ملک کی تعمیر نو میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ ان کے انداز سیاست نے ہی رعایا کو عوام ہونے کا شعور دیا اور عوام نے طبقاتی سیاست کے بڑے بڑے برج الٹادیئے۔
لاریب وہ سکندر مرزا کے عہد میں ایوان اقتدار میں داخل ہوئے پھر پہلے چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر جنرل ایوب خان کے دور میں وزیر خارجہ کے طور پر انہوں نے اپنی صلاحیتوں کالوہا منوایا۔ ایوبی رجیم سے الگ ہوئے تو ان کی اولین ترجیح نیشنل عوامی پارٹی اور دوسری کونسل مسلم لیگ تھی۔
بیل منڈھے نہ چڑھ پائی۔ انہوں نے پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھی ( مرحوم ڈاکٹر مہدی حسن کی یہ بات درست نہیں پیپلز پارٹی بھٹو نے نہیں ڈاکٹر مبشر حسن نے بنائی اور انہوں نے پی پی پی کی چیئرمینی ذوالفقار علی بھٹو کو پیش کی ) ۔
ترقی پسندانہ خیالات و نظریات کی حامل پی پی پی نے ایوبی دور کے گھپ اندھیرے میں عوام دوست سیاست کی شمع روشن کی۔
5 جولائی 1977ء کو ان کے اقتدار کا دوسرا دور تمام ہوا۔ جنرل ضیاء الحق نے (جنہیں انہوں نے 8ویں درجہ سے اٹھاکر آرمی چیف بنایا تھا) ملک میں مارشل لاء نافذ کردیا۔ ضیاء کی باندی بنی عدالتوں نے قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں انہیں سزائے موت سنائی۔
4 اپریل 1979ء کی صبح پھانسی گھاٹ پر ان کے سانسوں کی ڈور ٹوٹ گئی۔ بھٹو ضیاء الحق کے لئے پھانسی پر چڑھ کر زیادہ خطرناک ثابت ہوئے۔ ضیاء کے گیارہ سالہ مارشل لاء نے ہزاروں جیالوں کو کوڑے مارے۔ سوا لاکھ کے قریب سیاسی کارکنوں، ادیبوں، شاعروں، دانشوروں اور صحافیوں کو فوجی عدالتوں سے سزائیں دلوائیں مگر وہ بھٹو کی محبت لوگوں کے دلوں سے نہ نکال پائے۔
پچھلے 45 برسوں سے ان کی یادیں تازہ کرنے والے 4 اپریل کو گڑھی خدا بخش میں جمع ہوتے ہیں۔ کاش گڑھی خدا بخش میں ہر سال 4 اپریل کو جمع ہونے والے پاکستان پیپلزپارٹی کو پھر سے اس ملک کے محکوم و مجبور طبقات کی جماعت بناسکیں۔
وہ اس حقیقت کو سمجھ پائیں کہ پاکستان اس میں آباد پانچ قوموں کا ملک ہے اور بدلتے ہوئے حالات میں پانچوں قوموں کے درمیان نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے
مگر کیا وہ پیپلزپارٹی جس پر بھٹو کے قاتل طقبات کا "قبضہ” ہے نئی سیاسی بیداری کے ساتھ میدان عمل میں اتر پائے گی؟
یہ سوال خصوصی اہمیت کا حامل ہے مگر کیا پیروں میروں مخدوموں سرداروں اسٹیبلشمنٹ کے خاندانی طبلچیوں کی باندی بنی پیپلز پارٹی اپنے اصل کی طرف پلٹ پائے گی۔
دوسرا سوال پہلے سوال سے بندھا ہوا ہے۔
دیکھنا یہ ہے کہ 1988ء سے سمجھوتوں کی سیاست میں مصروف پی پی پی کی نشاط ثانیہ ہوپائے گی یا یہ خواب بھی تعبیر سے پہلے چوری ہوجائے گا۔