رمضان اور کورونا وائرس: کووڈ 19 کی وبا کے زمانے میں رمضان کیسا ہو گا؟
[ad_1]
رمضان کے آغاز میں چند دن ہی باقی ہیں لیکن رواں برس یہ مہینہ غیر معمولی حالات میں آ رہا ہے۔ ایسے حالات کہ جہاں دنیا بھر میں کورونا کی وبا نے لوگوں کو سماجی دوری اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے اور مسلم ممالک بھی اس وبا سے محفوظ نہیں ہیں۔
کورونا کو عالمی وبا قرار دیے جانے کے چند ہفتے بعد ہی یہ واضح ہو گیا تھا کہ اس کے پھیلاؤ میں مذہبی اجتماعات کا بڑا کردار رہا ہے۔
نتیجہ یہ ہوا کہ جدید تاریخ میں پہلی بار سعودی عرب میں مکہ کی مسجد الحرام نمازیوں سے خالی کروا لی گئی، عمرہ غیر معینہ مدت کے لیے معطل کر دیا گیا اور سعودی عرب نے حج کی خواہش رکھنے والوں سے درخواست کی ہے کہ وہ فی الحال اپنی سرگرمیاں ملتوی کر دیں۔
عراق اور ایران میں بھی مقدس مقامات کی زیارت کا سلسلہ موقوف ہے اور ماہرین نے ابھی تک مذہبی سیاحت کے شعبے کو ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانا شروع نہیں کیا ہے۔
مارچ میں مسیحیوں کے مذہبی تہوار ایسٹر سے قبل روزوں کے موقع پر سماجی دوری اور تنہائی کے لیے کیے گئے اقدامات دیکھ کر یہی لگ رہا ہے کہ ماہ رمضان میں مسلم دنیا میں بھی ایسا ہی کچھ ہونے والا ہے۔
تنہائی، سفری پابندی اور اجتماعات پر پابندی سے اسلامی رسومات اور عبادات جیسے عمرہ، نمازِ جمعہ اور یہاں تک کہ تدفین تک کا عمل متاثر ہوا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ رمضان میں کیا ہو گا؟
کورونا وائرس مذہبی رسومات کی ادائیگی میں بھی حائل
پاکستان میں مذہبی اجتماعات پر پابندی تنازع کا شکار
کورونا وائرس مذہبی تہواروں پر کیسے اثر انداز ہو رہا ہے؟
جنوبی کوریا کے پادری کی کورونا وائرس پھیلانے پر معافی
مساجد کھلی ہوں گی مگر باجماعت نمازوں کے اجتماعات انتہائی محدود
روک تھام ایک ’قانونی ذمہ داری‘ ہے
اسلام رمضان المبارک میں مسافروں اور مریضوں کو روزہ قصر کرنے یا نہ رکھنے کی اجازت دیتا ہے اور روح کی حفاظت اور بحالی اور اسے پہنچنے والے نقصان سے بچنے کی تاکید کرتا ہے۔
رواں برس وبا کے دوران رمضان کے روزوں کے بارے میں پہلا فتویٰ مصر میں الازہر سے سامنے آیا ہے جس کے مطابق کورونا کی وبا کے زمانے میں جب تک یہ سائنسی طور پر ثابت نہیں ہوتا کہ پانی نہ پینے سے روزہ داروں کی صحت پر اثر پڑ سکتا ہے، ان کے لیے روزہ چھوڑنا جائز نہیں۔
الازہر نے کہا ’اس کا فیصلہ قابل اعتماد ڈاکٹروں کے کرنے کا ہے کیونکہ وہ انسانی صحت کو محفوظ رکھنے کے معاملے میں ماہر ہیں، اور ان کا فیصلہ ہر مسلمان پر لاگو ہوتا ہے چاہے وہ روزہ دار ہو یا نہیں۔‘
فتوے میں یہ بھی یاد دلایا گیا ہے کہ اسلام میں وضو کرتے ہوئے چہرہ دھونے کے ساتھ پانی منھ میں بھی داخل کیا جاتا ہے جس سے مسلمان اپنے منہ کو نم کرتے ہیں بشرطیکہ یہ پانی ان کے پیٹ میں پانی داخل نہ ہو اور ان کا روزہ باطل ہو جائے۔‘
الازہر میں ’فقہی تحقیقاتی کمیٹی‘ نے عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹروں اور نمائندوں اور الازہر میں متعدد دینی ماہرین سے بات کی اور یہ نتیجہ اخذ کیا کہ ابھی تک کورونا اور روزے کے کسی تعلق کا کوئی سائنسی ثبوت موجود نہیں ہے۔
اس لیے کورونا کے زمانے میں بھی روزے کے سلسلے میں اسلامی شریعت کا حکم اسی طرح لاگو ہے اور تمام مسلمانوں پر روزہ رکھنا فرض ہے، سوائے ان افراد کے جنھیں دین روزہ قصر کرنے یا نہ رکھنے کی اجازت دیتا ہے۔
شیخ الازہر احمد الطیب کا کہنا ہے کہ کورونا کے انفیکشن کی روک تھام کے لیے دی جانے والی ہدایات پر عمل پیرا ہونا ایک ’جائز فریضہ‘ ہے۔
الازہر نے یہ بھی کہا کہ وہ شیعہ عالم دین آیت اللہ علی سیستانی کے فتوے سے اتفاق کرتے ہیں کہ کورونا وائرس کی وبا میں مرنے والوں کو آخرت میں شہید کا رتبہ ملے۔
آیت اللہ سیستانی نے کہا ہے کہ ان کی خواہش ہے کہ وہ لوگ جنھوں نے اس وبا سے لڑنے میں اپنی زندگی کی قربانی دی انھیں ’شہید کا اجر‘ ملے۔
طاعون کی مثالوں پر واپس جائیں
تاریخ میں رمضان کا مہینہ اور حج وبائی بیماریوں سے پہلے بھی متاثر ہوتا رہا ہے۔ ماضی میں طاعون اور ہیضے کی وجہ سے حج متاثر ہوا تھا۔
کورونا کی رسمی وبا کے اثرات سے متعلق ایک مفصل فتوے میں مسلم دانشور علی محی الدین القرادگی نے صحیح مسلم کی اس حدیث کا حوالہ دیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ جہاں طاعون کی وبا ہو نہ وہاں کا رخ کیا جائے اور جو وہاں موجود ہے وہ بھی علاقہ نہ چھوڑے۔
وہ لکھتے ہیں ’جہاں تک میں جانتا ہوں، تاریخ میں حج طاعون اور اس جیسی وجوہات کی بنا پر مکمل طور پر بند نہیں ہوا لیکن یہ ضرور ہے کہ قرامطہ فرقے نے کئی برسوں تک حج نہیں ہونے دیا تھا کیونکہ ان کے دورِ حکمرانی میں کچھ علاقے طاعون کی وجہ سے متاثر ہوتے رہے تھے۔
سنہ 2009 میں جب سوائن فلو پھیلا تو بھی حج پر پابندی کے لیے کچھ فتاویٰ سامنے آئے تھے لیکن سعودی حکومت نے اس معاملے کا فقہی اور طبی لحاظ سے مطالعہ کیا اور یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ اس خطرے کی تصدیق یا توثیق نہیں کی جا سکتی لہٰذا حج کو نہیں روکا جا سکتا۔
فتوے میں سنہ 1899 میں ہیضے کی چھٹی لہر میں بھی حج کو روکنے کے بارے میں ایک تاریخی حقیقت کی نشاندہی کی گئی ہے۔
جہاں تک روزے کی بات ہے تو طاعون کی وبا کئی مرتبہ ماہ رمضان میں بھی پھیلی لیکن یہ اس خیال پر غور کرنے سے قبل ہی ختم ہو گئی کہ اس کی وجہ سے روزے ساقط ہو سکتے ہیں یا نہیں۔
’رحمت کے دسترخوانوں‘ کی عدم موجودگی
ابھی تک کوئی دستاویزی سائنسی تحقیق موجود نہیں جس کا استعمال یہ کہنے کے لیے کیا جا سکتا ہو کہ روزہ وائرس سے ہمارے متاثر ہونے کے امکانات کو مثبت یا منفی انداز میں متاثر کر سکتا ہے۔
ایسے مطالعات ہیں جن سے یہ اشارہ ہوتا ہے کہ کھانے کے درمیان 14 گھنٹوں سے زیادہ کے وقفے سے مدافعتی نظام کو تقویت ملتی ہے اور یہی وقفے وقفے سے کھانے کے مشہور طریقے انٹرمیٹنٹ فاسٹنگ کی بنیاد ہے جو زہریلے مواد کے جسم سے اخراج کے لیے بھی کارآمد ہے۔
کورونا کی موجودہ وبا میں، الازہر کے اس فتوے کی موجودگی میں کہ احتیاطی تدابیر کے طور پر روزہ نہ رکھنا جائز نہیں، وائرس کا اثر لوگوں کے روزہ رکھنے پر تو شاید نہیں پڑے گا لیکن رمضان سے جڑی رسومات اور فرائض جیسے کہ تراویح، باجماعت نماز، افطار کی خاندانی دعوتیں اور تہواروں کے اجتماعات ضرور متاثر پو سکتے ہیں۔
علمائے کرام کے اتفاق رائے سے کہ باجماعت نماز واجب نہیں، لوگوں کو شاید اپنے گھروں میں نماز پڑھنی پڑے گی اور سحر و افطار میں محافل کا انعقاد روکنا پڑے گا۔
عرب ممالک میں رمضان سے منسلک معاشرتی رسومات پر اثرات بہت زیادہ ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ بازاروں میں ہجوم نہیں ہو گا جیسا کہ ہر سال ہوتا ہے۔
اگر ممکنہ طور پر آنے والے ہفتوں میں احتیاطی تدابیر بدستور برقرار رہیں تو سحر و افطار بڑی بڑی دعوتوں کی جگہ اہلِخانہ کے ساتھ کھانے کی میز پر روزہ رکھنے اور کھولنے تک محدود ہو جائے گا۔
نیز، بہت سارے عرب ممالک میں غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلانے کے لیے ’رحمت کے دسترخوان‘ بھی شاید اس طرح سے نہ لگ سکیں جیسے کہ لگتے آئے ہیں۔
دریں اثنا کچھ لوگ سحر و افطار میں تنہائی سے بچنے کے طریقوں کے بارے میں سوچنا شروع کر رہے ہیں کہ کیسے وہ گھر میں ہی رہتے ہوئے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے دیگر لوگوں کے ساتھ یہ فریضہ سرانجام دیں۔
ورچوئل افطار
برطانیہ میں بھی نوجوان مسلمانوں کا ایک گروپ اس نئی حقیقت کو ایک موقعے کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مسلم ٹینٹ پراجیکٹ میں عام طور پر ایک تقریب کا انعقاد ہوتا ہے جسے اوپن افطار کہا جاتا ہے۔ وہ لندن کے ٹریفالگر سکوائر جیسے مشہور مقام پر خیمہ لگاتے ہیں اور اس میں تمام عقائد کے لوگوں کو کھانے میں شامل ہونے کی دعوت دی جاتی ہے۔
اس سال کیونکہ معاشرتی دوری جیسے اقدامات موجود ہیں اس لیے وہ رمضان کے پہلے دن ایک ورچوئل افطار کا انتظام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور انھیں امید ہے کہ ہزاروں افراد اس میں شامل ہوں گے۔
مسلم ٹینٹ پراجیکٹ کے لیے کام کرنے والی روہما احمد کا کہنا ہے کہ ’ہم یقینی طور پر بڑے خواب دیکھ رہے ہیں۔‘
زوم پر کیا جانے والا یہ افطار پورے رمضان المبارک میں جاری رہے گا۔ روہما بتاتی ہیں کہ ’نمازِ مغرب کے بعد افطار کے موقع پر ہر کوئی دعا میں شامل ہو سکتا ہے۔‘
روہما اور اس کی ٹیم کے لیے سوشل میڈیا، گفتگو کو جاری رکھنے کا ایک ذریعہ ہے اور وہ لوگوں سے اپنے افطار کے تجربات شیئر کرنے کو کہہ رہے ہیں۔
’ہمیں ایسا کوئی احساس نہیں ہوتا کہ چونکہ ہم جسمانی طور پر ایک دوسرے سے دور ہیں اس لیے ہمیں یہ رمضان تنہا گزارنا پڑے گا۔‘
Source link
International Updates by Focus News