پاکستان نے جمعہ کے روز اسرائیلی افواج اور انتہا پسند آباد کاروں کے مسجد اقصیٰ میں داخلے کی مذمت کرتے ہوئے دنیا پر زور دیا کہ وہ ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرے جو یروشلم میں مقدس مقامات کے احترام کی "بار بار ہونے والی خلاف ورزیوں” کو ختم کر سکے۔
اس ہفتے کے شروع میں منگل کو اسرائیلی شہریوں نے انتہائی دائیں بازو کے قومی سلامتی کے وزیر اتمار بین گویر کی قیادت اور پولیس کی حفاظت میں مقبوضہ مشرقی یروشلم میں مسجد پر یلغار کر دی۔
مسجدِ اقصیٰ تمام دنیا کے مسلمانوں کے لیے بہت زیادہ مذہبی اہمیت کی حامل ہے اور اسے مکہ مکرمہ کی مسجدِ حرام اور مدینہ منورہ میں مسجدِ نبویؐ کے بعد اسلام کا تیسرا مقدس ترین مقام سمجھا جاتا ہے۔
دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے ہفتہ وار میڈیا بریفنگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا، "پاکستان اسرائیلی قابض حکام کے عہدیداروں کی قیادت میں سینکڑوں انتہا پسند آباد کاروں کے مسجدِ اقصیٰ میں غیر قانونی داخلے کی شدید مذمت کرتا ہے۔”
انہوں نے مزید کہا، "پاکستان عالمی برادری اور بالخصوص اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ یروشلم میں مقدس مقامات کے احترم کی ان سنگین اور بار بار ہونے والی خلاف ورزیوں کو ختم کرنے کے لیے فوری کارروائی کرے۔”
بلوچ نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اسلام کے ایک مقدس ترین مقام کی بے حرمتی اور عبادت گذاروں کے حقوق میں رکاوٹ نے مسلمانوں کے جذبات کو شدید مجروح کیا ہے۔ انہوں نے اسرائیلی کارروائیوں کو جنیوا کنونشنز اور اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں کی صریح خلاف ورزی قرار دیا جو یروشلم شہر پر توجہ مرکوز کرتی ہیں۔
غزہ میں فلسطینیوں کا قتلِ عام بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم پر اسرائیل سے جواب طلب کیا جائے۔
انہوں نے بات جاری رکھی، "غزہ کے عوام کے خلاف جاری جنگ میں گذشتہ دن ایک المناک سنگِ میل ثابت ہوا۔ اسرائیلی قابض افواج نے 40,000 افراد کا قتلِ عام کیا ہے جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔”
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی پالیسی جس کا مقصد یروشلم کے عرب اور اسلامی کردار کو تبدیل کرنا ہے، پاکستان اس سے پیدا ہونے والی تشویش پر اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی حمایت کرتا ہے۔
دفترِ خارجہ نے مسجد الاقصیٰ کے اسلامی کردار کے تحفظ اور فلسطینیوں کی عبادت کی آزادی کو یقینی بنانے پر زور دیا۔