وسطی ایشیائی جمہوریاؤں کے ساتھ تعلقات ”جرمنی کے لیے اسٹریٹجک ہدف‘‘ ہے، جرمن چانسلر اولاف شولس
شولس نے ایک سال قبل وسطی ایشیا کے پانچ ممالک کو اکٹھا کرنے والے پہلے سربراہی اجلاس میں قازقستان، ازبکستان، کرغزستان، تاجکستان اور ترکمانستان کے ساتھ ایک اسٹریٹجک شراکت داری قائم کی تھی
جرمنی (کرسٹین ہورز اسحاق)قازقستان کے دورے پر موجود جرمن چانسلر نے وسط ایشیائی ریاستوں کے ساتھ تعلقات کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یوکرینی جنگ کے بعد اس خطے میں برلن حکومت کی ترجیحات میں تبدیلی آئی ہے۔
شولس نے ایک سال قبل وسطی ایشیا کے پانچ ممالک کو اکٹھا کرنے والے پہلے سربراہی اجلاس کی میزبانی کی تھی
جرمن چانسلر اولاف شولس نے آج 17 ستمبر بروز منگل وسطی ایشیائی جمہوریاؤں کے ساتھ تعلقات کے فروغ کو ”جرمنی کے لیے اسٹریٹجک ہدف‘‘ قرار دیا۔ جرمن سربراہ حکومت ایک علاقائی سربراہی اجلاس کے لیے قازقستان کا دورے پر ہیں۔
شولس نے قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں کہا، ”ہمارے معاشروں کے درمیان پہلے سیاسی، اقتصادی اور ثقافتی تبادلے نہیں ہوا کرتے تھے لیکن اب یہ مسلسل بڑھ رہے ہیں۔‘‘ ان کامزید کہنا تھا، ”ہم اسے جاری رکھنا چاہتے ہیں اور اسے مزید تیز کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
شولس نے ایک سال قبل وسطی ایشیا کے پانچ ممالک کو اکٹھا کرنے والے پہلے سربراہی اجلاس میں قازقستان، ازبکستان، کرغزستان، تاجکستان اور ترکمانستان کے ساتھ ایک اسٹریٹجک شراکت داری قائم کی تھی۔ شولس کا کہنا تھا، ”خاص طور پر عالمی غیر یقینی صورتحال کے دور میں، ہمیں قریبی اور قابل بھروسہ بین الاقوامی شراکت داروں کی ضرورت ہے۔‘‘
قازق صدر قاسم جومارت توکایف نے کہا کہ توانائی کے شعبے میں تعاون کا جرمنی کے ساتھ تعلقات میں ”کلیدی کردار‘‘ ہے۔ انہوں نے جرمن کمپنیوں کو اپنے ملک میں موجود دھاتوں کے دیگر ذخائر کی تلاش اور لیتھیم کی کان کنی میں حصہ لینے کی دعوت بھی دی، جو کہ بیٹریوں کی پیداوار کے لیے بہت ضروری ہے۔
یوکرینی جنگ کے آغاز کے بعد سے وسط ایشیا کے لیے برلن حکومت کی ترجیحات میں تبدیلی آئی ہےیوکرینی جنگ کے آغاز کے بعد سے وسط ایشیا کے لیے برلن حکومت کی ترجیحات میں تبدیلی آئی ہے
اگرچہ یہ پانچوں ممالک سابق سوویت جمہوریہ کا حصہ رہ چکے ہیں اور اب بھی روس کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں، تاہم وہ وہ اپنے طاقتور پڑوسی پر انحصار کم کرنے کے لیے مغربی ممالک کے ساتھ بھی تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ان پانچوں ممالک کی مجموعی آبادی 80 ملین کے قریب ہے، جو جرمنی کی آبادی سے کچھ کم ہے۔ تاہم ان کا رقبہ تقریباً پوری یورپی یونین کے علاقے کے برابر ہے۔ حالیہ دہائیوں میں جرمنی نے دو بڑی طاقتوں یعنی چین اور روس کے ساتھ قریبی اقتصادی تعلقات کےباعث اس خطے کے باقی ممالک کو بڑی حد تک نظر انداز کیے رکھا۔ لیکن یوکرین پر روسی فوجی حملے نے برلن اور ماسکو کے مابین تعلقات کو خراب کر دیا۔