دھماکہ سول ہسپتال اور گورنمنٹ گرلز سکول کے قریب ہوا۔بلوچستان کے ضلع مستونگ میں بم دھماکے کے نتیجے میں سکول کے پانچ کم عمر طلبہ سمیت 7 افراد ہلاک اور 30 زخمی ہو گئے ہیں، زخمیوں میں بھی اکثریت سکول کے بچوں کی ہے۔
پولیس کے مطابق دھماکہ جمعے کی صبح مستونگ کے مرکزی علاقے میں سول ہسپتال اور گورنمنٹ گرلز سکول کے قریب اس وقت ہوا جب طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد سکول آ رہی تھی۔
انہوں نے بتایا کہ مرنے والوں میں پانچ طالب علم، ایک پولیس اہلکار اور ایک پنکچر لگانے والا شامل ہے۔
اس سے قبل مستونگ پولیس ڈی ایس پی میاں داد عمرانی نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ بظاہر دھماکے میں پولیس کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا مگر اس کی زد میں دکاندار، راہ گیر اور سکول کے طلبہ بھی آئے۔
ہسپتال اور سکول قریب قریب ہے پولیس کی گاڑی پولیس لائن سے اہلکاروں کو لے کر انسداد پولیو ٹیم کو سکیورٹی دینے کے لیے وہاں پہنچی تھی۔
عینی شاہدین کے مطابق دھماکہ سکول کھلنے کے وقت ہوا اس لیے وہاں بڑی تعداد میں طلبہ و طالبات موجود تھے۔
دھماکے سے کئی گاڑیوں، رکشوں اور موٹرسائیکلوں کو بھی نقصان پہنچا۔
لاشوں اور زخمیوں کو سول ہسپتال اور نواب غوث بخش رئیسانی ہسپتال لے جایا گیا جہاں کئی زخمیوں کی حالت تشویشناک بتائی جاتی ہے- ہسپتال انتظامیہ نے شہریوں سے خون کے عطیات کی اپیل کی ہے۔
صوبائی وزیر صحت بخت محمد کاکڑ کے مطابق دھماکے کی اطلاع ملتے ہی مستونگ اور کوئٹہ کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے۔ زخمیوں کو علاج کی ہرممکن سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔
وزیراعلٰی بلوچستان میر سرفراز بگٹی نے مستونگ میں دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردوں نے سافٹ ٹارگٹ میں اب معصوم بچوں کو نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ معصوم بچوں اور بے گناہ افراد کے خون کا حساب لیں گے۔
کوئٹہ سے متصل ضلع مستونگ عسکریت پسندوں کا گڑھ سمجھا جاتا ہے یہاں کالعدم بلوچ مسلح تنظیموں کے علاوہ کالعدم مسلح مذہبی تنظیمیں تحریک طالبان پاکستان، داعش، لشکر جھنگوی سرگرم ہیں یا ماضی قریب میں سرگرم رہ چکی ہیں۔
گزشتہ سال 12 ربیع الاول کے جلوس پر دھماکے میں 50 سے زائد افراد ہلاک جبکہ 2018 میں ایک انتخابی جلسے میں بم دھماکے میں سابق وزیراعلٰی نواب اسلم رئیسانی کے بھائی سراج رئیسانی سمیت 130 سے زائد افراد مارے گئے تھے۔