حیدر جاوید سیدکالمز

” صبح آزادی "( یادداشتیں) قسط 3 …..حیدر جاوید سید

ادھر بھٹو دور کے ایک رکن قومی اسمبلی میاں ساجد پرویز محمد حنیف رامے کے مساوات پارٹی میں چلے گئے۔ ساجد پرویز ملک غلام مصطفی کھر کے دست راست سمجھے جاتے تھے اس لئے ابتداً یہ تاثر لیا گیا کہ غلام مصطفی کھر بھی مساوات پارٹی کا حصہ بن جائیں گے

مجھ طالب علم کے لئے یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ کمال اظفر نے خود کو پی پی پی کے دائیں بازو والے دھڑے میں شمار کیا۔ صبح آزادی میں ا نہوں نے ڈھیر ساری حقیقتیں بیان کیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ دائیں بازو والے پیپلزپارٹی کے رہنمائوں نے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء کے دوران بیگم نصرت بھٹو کو پارٹی کا چیئرمین منتخب کئے جانے پر مولانا کوثر نیازی کی قیادت میں پروگریسو پیپلزپارٹی کے نام سے الگ جماعت بنالی تھی اسی طرح قدرے ترقی پسند سمجھے جانے والے محمد حنیف رامے ( مرحوم ) نے ” رب ۔ روٹی ۔ لوک راج ” کا نعرہ لگاتے ہوئے پاکستان مساوات پارٹی کے نام سے الگ جماعت بنالی۔ کوثر نیازی اور حنیف رامے کی جماعتوں میں بہت نہیں تو چند معروف لوگ اور اِکادُکا کارکن ضرور شامل ہوئے۔ خود کمال اظفر بھی پروگریسو پیپلزپارٹی میں جانے والوں میں شامل تھے۔
ادھر بھٹو دور کے ایک رکن قومی اسمبلی میاں ساجد پرویز محمد حنیف رامے کے مساوات پارٹی میں چلے گئے۔ ساجد پرویز ملک غلام مصطفی کھر کے دست راست سمجھے جاتے تھے اس لئے ابتداً یہ تاثر لیا گیا کہ غلام مصطفی کھر بھی مساوات پارٹی کا حصہ بن جائیں گے۔
لیکن اس تاثر کو بہت زیادہ قبولیت اس لئے حاصل نہ ہوئی کہ مختلف الخیال صائب الرائے افراد جاگیردار ملک غلام مصطفی کھر اور سفید پوش سیاستدان محمد حنیف رامے کے باہمی اختلافات اور کھر کے دل میں رامے صاحب کے لئے موجود بغض سے آگاہ تھے۔
کمال اظفر لکھتے ہیں کہ ایک مرحلہ پر ڈاکٹر اشرف عباسی نے بھٹو صاحب سے پوچھا ’’پیر پگاڑا کو تنگ کرنا ضروری تھا؟ تو بھٹو نے جواب دیا پگاڑا گلے پڑ رہے تھے ” ۔ ان کے بقول کراچی میں ڈی ایچ کے دفاتر کی بغلی گلی میں مقیم پی ایل او کے ایک رہنما نے مجھ سے رابطہ کر کے یاسر عرفات کا پیغام دیا کہ ’’پی ایل او ذوالفقار علی بھٹو کو فرار کراکے تیونس میں قائم اپنے دفتر لے جانے کی خواہش مند ہے‘‘۔
بیگم نصرت بھٹو کو جب اس پیغام سے آگاہ کیا گیا تو انہوں نے اس پیشکش کو مسترد کردیا۔ کمال اظفر قاضی انور کے حوالے سے دعوے دار ہیں کہ ’’ایسا لگتا تھا کہ بیگم نصرت بھٹو مشرقی پاکستان سے تعلق رکھنے والی حسنہ شیخ سے بھٹو کی شادی (یہ شادی دعووں کے مطابق غالباً 1972ء میں ہوئی ۔ کمال نے لکھا ہے) کا بدلہ لینے پر تلی ہوئی تھیں۔
یہ دعویٰ کچھ عجیب ہے اس لئے کہ حسینہ شیخ سے ذوالفقار علی بھٹو کی شادی کا قصہ زیڈ اے سلہری نے سب سے پہلے لکھا پھر دائیں بازو کے اخبارات و جرائد اسے لے اڑے۔ حسینہ شیخ سے شادی کے اس قصے کے اصل راوی مولانا کوثر نیازی تھے۔ بھٹو نے اس کی کبھی تصدیق نہیں کی بلکہ وہ اسے ایک الزام قرار دیتے رہے ان (بھٹو) کا خیال تھا کہ ’’میرے مخالفین نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا مجھے غیرمسلم ماں کا غیرمسلم بیٹا قرار دینے کے لئے مگر جب بات نہ بن پائی تو حسینہ شیخ سے شادی کا قصہ گھڑلیا ” ۔
بھٹو کے موقف میں وزن اس لئے ہے کہ جو لوگ حسینہ شیخ سے بھٹو کی شادی کا قصہ سناتے لکھتے تھے ان میں سے کسی نے بھی کبھی نکاح نامہ، شادی کی کوئی تصویر یا اپنے دعوے کے موجب بھٹو کی لندن میں حسینہ شیخ سے ملاقاتوں کا ثبوت پیش نہیں کیا۔ اب اگر اس قصے کا تجزیہ کیا جائے تو یہ ماننا پڑتا ہے کہ حسینہ شیخ والا قصہ بھٹو کے مخالفوں سے زیادہ ان کی جماعت میں موجود دائیں بازو کی سوچ کے حاملین نے گھڑا اور اچھالا مخالفین نے اسے اپنا رزق اور ورد بنالیا۔
’’صبح آزادی‘‘ کے مصنف لکھتے ہیں ’’ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی سوشلسٹوں اور بھٹو پرستوں میں بٹی ہوئی تھی۔ سوشلسٹوں کے سرخیل شیخ رشید احمد (بابائے سوشلزم) تھے اور بھٹو پرستوں کے سرخیل سندھ کے بڑے جاگیردار اور سابق وزیراعلیٰ تھے (یہاں انہوں نے غلام مصطفی جتوئی کا نام کیوں نہیں لکھا یہ سمجھ سے باہر ہے)
البتہ ان کے مطابق پی پی پی کی مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس میں حفیظ پیرزادہ نے شیخ رشید کا نام پارٹی کے عبوری چیئرمین کے لئے پیش کیا۔ شیخ رشید اس وقت پی پی پی کے مرکزی سینئر وائس چیئرمین تھے۔
اجلاس میں جونہی شیخ رشید کا نام پیش کیا گیا پارٹی کے جاگیردار گروپ نے جتوئی کی قیادت میں اس کی مخالفت کی کیونکہ شیخ رشید کی زرعی اصلاحات سے سب سے زیادہ نقصان غلام مصطفی جتوئی کو پہنچا تھا۔
کمال اظفر کہتے ہیں ’’ایشیاء موروثی سیاست سے محبت کرتا ہے۔ شخصیت پرستی سے خاندان پرستی میں ڈھلتی پیپلزپارٹی بیگم بھٹو کے قائم مقام چیئرمین بنائے جانے کے 30 سال بعد 27دسمبر 2007ء کو بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کے داماد آصف علی زرداری کے مفاد کا آلہ کار بن کر رہ گئی‘‘۔
اس مرحلے پر اگر وہ (کمال اظفر) سندھ کی اردو بولنے والی اشرافیہ اور مقامی سندھی اشرافیہ کے درمیان موجود بُعد کا ذکر نہ بھی کرتے تو کم از کم انہیں اس امر کا اعتراف کرنا چاہیے تھا کہ "جب 1995ء میں محترمہ بینظیر بھٹو انہیں سندھ کا گورنر بنانے جارہی تھیں تو حاکم علی زرداری (آصف زرداری کے والد) کی قیادت میں سندھ کے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کے ایک بڑے وفد نے محترمہ بینظیر بھٹو سے ملاقات میں مہاجر اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے کمال اظفر کی بجائے کراچی سے ہی کسی ایسے کارکن کو گورنر بنانے کی درخواست کی جس نے جنرل ضیاء کے عہد ستم میں کمال ظفر کی طرح پارٹی سے فرار نہ کیا ہو‘‘۔ محترمہ بینظیر بھٹو کا غالباً یہ موقف تھا کہ کمال ظفر جہاندیدہ سیاستدان اور کراچی کی اشرافیہ کا حصہ ہیں ان کی گورنر ہائوس میں موجودگی ایم کیو ایم اور دوسرے سیاسی مخالفین (کراچی والوں ) کے سامنے اخلاقی ڈھال ثابت ہوگی۔
خیر ہم آگے بڑھتے ہیں۔ کمال اظفر نے اپنی کتاب میں ’’قاضی انور کے خلاف مارشل لاء رجیم کے ایک جھوٹے مقدمے کو کچھ اس انداز میں لکھا کہ ایسا لگتا ہے کہ قاضی انور بیگم نصرت بھٹو کی فراہم کردہ رقم سے قبائلی علاقوں سے ہتھیاروں کی ایک کھیپ خرید کر لاہور آیا۔ ہتھیاروں کی یہ کھیپ ’’النصرت‘‘ کے لڑاکا جتھے میں تقسیم ہونا تھی لیکن بات تو یہ تھی کہ ایسے کسی جتھے کا وجود نہیں تھا۔
ان کے بقول ” قاضی انور اپر مال لاہور کے معروف ہوٹل میں مقیم تھا جونہی اس نے ہتھیاروں کی کھیپ اپنے سپرددار کو فراہم کرنے کے لئے ملاقات کی پولیس نے دھاوا بول کر اسے گرفتار کرلیا‘‘۔
پشاور اور لاہور پولیس کی یہ کہانی خفیہ ایجنسی کی گھڑی ہوئی تھی۔ پشاور سے آگے قبائلی علاقوں سے اسلحہ خرید کر اطمینان کے ساتھ لاہور لے کر پہنچ جانا ممکن ہی نہیں تھا۔
کمال اظفر کہتے ہیں کہ بیگم نصرت بھٹو نے قاضی انور اور ڈاکٹر نیازی کو خفیہ پولیس یا سی آئی ڈی سے ملا ہوا قرار دیا۔ اس الزام کے راوی کتاب کے مصنف خود ہیں ورنہ حقیقتاً قاضی انور اور ڈاکٹر نیازی بیگم نصرت بھٹو اور بھٹو خاندان کے بااعتماد رفیق کا درجہ رکھتے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کمال اظفر نے حسینہ شیخ سے بھٹو کی شادی اور بیگم نصرت بھٹو کا غصہ ہر دو باتوں کا راوی اپنی کتاب میں قاضی انور کو بتایا۔ ان کے بقول ’’وہ ( کمال) اور غلام مصطفی جتوئی جب جنرل ضیاء الحق سے ملے (بھٹو کی پھانسی سے قبل) تو جنرل ضیاء الحق نے کہا
’’یہ ایک قبر اور دو دشمنوں کا سوال ہے، نیز یہ کہ اگر مجھے (ضیاء کو) معلوم ہوتا کہ پی پی پی ، پی این اے کی تحریک اور مارشل لاء کے بعد عوامی ساکھ اتنی جلدی بحال کرنے میں کامیاب ہوجائے گی تو وہ 5 جولائی 1977ء کی شب ہی وزیراعظم کے گھر کا صفایا کردیتا یعنی پورے خاندان کو صفحہ ہستی سے مٹادیتا‘‘۔
عین ممکن ہے کہ یہ بات ایسے ہی ہو جیسے بیان کی گئی لیکن مارشل لاء لگنے کے بعد مری میں بھٹو ضیاء ملاقات اور بعدازاں ایک سے زائد بار ضیاء کا یہ کہنا کہ فوج ریفری ہے عام انتخابات کراکے بیرکوں میں واپس چلی جائے گی سے متضاد ہے۔
اسی طرح قبر ایک اور مردو دے والی بات بھی حیدر آباد سازش کیس کے خاتمے پر جیل سے رہا ہونے والے کالعدم نیپ کے سربراہ خان عبدالولی خان کے حوالے سے اس وقت اخبارات میں شائع ہوئی۔ ولی خان کی جس دوسری بات نے شہرت حاصل کی وہ تھی ’’پہلے احتساب پھر انتخابات‘‘۔ یہ دونوں باتیں انہوں نے جیل سے رہائی کے بعد تواتر کے ساتھ اپنے متعدد خطابات میں کیں۔ انہوں (کمال اظفر) نے یہ بھی کہا کہ وہ بطور گورنر جب سابق جسٹس دراب پٹیل سے ملے تو دراب پٹیل نے ان سے کہا کہ بھٹو کی پھانسی کا ذمہ دار یحییٰ بختیار ہے۔ اس نے ان کے مشورے کے باوجود جلد بازی کی۔ یحییٰ بختیار کو جسٹس وحید الدین خان کی صحت یابی کا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ ( جاری ہے )

مزید دکھائیں

متعلقہ مضامین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button